لگتا ہے وزیراعظم شہباز شریف کو اب یقین سا ہوچلا ہے کہ وہ آئندہ اس منصب پر شاید نہ آسکیں اور وزارت اعلیٰ ’’تخت پنجاب‘‘ بھی مشکل میں ہے تو کیوں نہ ’’ریاست بچائو سیاست مکائو‘‘مہم کے تحت ایسے اقدامات کئے جائیں کہ اگر وہ نہیں تو پھر کم از کم آئندہ حکومت ’اپنوں‘ میں سے تو کسی کے نصیب میں نہ آئے۔ وہ جو کہتے ہیں نہ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے، کے فلسفے پر اب وہ عمل پیرا ہیں جس کی تازہ مثال پیٹرول کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہے اور ایسے ہی مزید اقدامات کروانے IMF کا وفد پاکستان پہنچ رہا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
دوسری طرف ہمارے قائد انقلاب عمران خان صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان تمام 35 نشستوں پر ضمنی الیکشن لڑیں گے جو پاکستان تحریک انصاف کے ایم این ایز (MNA’s) کے استعفے قبول کرنے سے خالی ہوئی ہیں جبکہ ابھی تو مزید نشستوں کے بارے میں الیکشن شیڈول کا اعلان ہونا باقی ہے، وہاں سے بھی وہی لڑیں گے۔ پہلے قومی اسمبلی سے نکلنے کی غلطی پھر واپس جانے میں تاخیر کی غلطی اور آخر میں اپنی ہی حکومتیں ختم کرکے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کی غلطی۔ اس ساری صورتحال میں چوہدری پرویز الٰہی بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ اپنی جماعت مسلم لیگ (ق) کو پی ٹی آئی میں ضم کریں یا نہ کریں۔
اب آتے ہیں شریف برادران کی حکومت اور اس سے جڑی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی مخلوط حکومت کی طرف جو کل تک ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگاتی تھی آج پنجاب اور کے پی کے الیکشن آگے بڑھانے کا جواز تلاش کررہی ہے اور شاید پھر عام انتخابات بھی ایک سال کیلئے ملتوی کرنے کا کیونکہ اب ان کا نعرہ ہے ’ریاست بچائو، سیاست مکائو‘ مگر لگتا کچھ ایسا ہے کہ سیاست کو جو نقصان ہونا تھا ہوگیا، باری اب ریاست کی ہے۔
اب اس مقابلہ برائے ’سیاسی غلطیوں‘ میں کون کامیاب ہوگا اور کس کی غلطیوں کا فائدہ کسے ہوگا، اس کیلئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ آخری فیصلہ بہرحال وہی کرتے ہیں جو کرتے آئے ہیں، ویسے ہم ’دل پشوری‘ کیلئے کہہ سکتے ہیں ’عوام‘ فیصلہ کریں گے۔ اب آتے ہیں، اس طرف کہ اس مقابلے میں اب تک کس سے کتنی غلطیاں سرزد ہوئیں اور اس کا فائدہ کس کو ہوا۔ آپ لوگ اپنے اپنے حساب سے پوائنٹس دیتے جائیں نتائج کا اعلان بہرحال الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا جیسا کہ کراچی میں 18 سے 20 فیصد ٹرن آئوٹ کے بعد نتائج کی تاخیر کے نتیجے میں ہوا۔
پہلے قائد انقلاب کی غلطیاں، 2018 میں الیکشن ہوئے تو اسٹیج تیار کیا جارہا تھا۔ میاں نواز شریف نااہل قرار دیئے جا چکے تھے، اب تو واقعی ایسا لگتا ہے کہ پانامہ لیکس ہی ان کے لئے ہوئی کیونکہ کئی سو افراد کے نام آئے مگر میاں صاحب کو سپریم کورٹ نے پہلے نااہل کیا اور پھر انہیں احتساب عدالت سے سزا ہوئی۔ یہ عمران خان کے لئے اچھی خبر تھی، اب سامنے نہ بےنظیر بھٹو شہید تھیں نہ ہی نواز شریف۔ رہی سہی کسر ہمارے معزز اداروں نے پہلے بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت ختم کرکے بلوچستان عوامی پارٹی کی صورت میں خان صاحب کو نیا اتحاد دیا پھر الیکشن میں فتح کے بعد جو کمی بیشی رہ گئی وہ مسلم لیگ (ق)، جنوبی پنجاب محاذ اور ایم کیو ایم (پاکستان) کی صورت میں پوری کی، یوں بنی پی ٹی آئی کی حکومت۔
اب امتحان تھا خان صاحب کا اور میرے قائد انقلاب کی صلاحیتوں کا۔ پنجاب میں عثمان بزدار وزیراعلیٰ بنائے گئے جنہوں نے کچھ عرصہ قبل ہی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اور وزارت خزانہ اسد عمر صاحب ،جن کو خان نے پہلے ہی خزانہ کا بہترین انتخاب قرار دے دیا تھا، کے نصیب میں آئی، اداروں کی خان صاحب سے محبت کا یہ عالم تھا کہ پی ڈی ایم کی سینیٹ میں واضح اکثریت ہونے کے باوجود وہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہ کرا سکے اور حاصل بزنجو مرحوم چیئرمین سینٹ نہ بن سکے۔
قائدِ انقلاب کی حکومت سے پہلی بڑی غلطی تو پنجاب میں سرزد ہو چکی تھی جس کا وہ اپنے پورے دور میں دفاع کرتے رہے، اس پر اب مزید کیا بات کرنا مگر ان کو نہ اپوزیشن سے کوئی خطرہ تھا نہ اسٹیبلشمنٹ سے۔ پی ڈی ایم سے ’پی‘ یعنی پی پی پی نکل گئی تو وہ ’ڈی ایم‘ کے ذریعہ ڈرم پیٹتے رہے، کبھی مولانا لانگ مارچ کرتے تو کبھی اسمبلیوں سے استعفوں کی دھمکی دیتے۔ غرض یہ کہ خان کو کوئی خطرہ نہیں تھا، اپنے تئیں بہت سے اچھے اقدامات بھی کئے جن میں نمایاں ہیلتھ کارڈ، کسان کارڈ وغیرہ۔ کورونا میں بھی حکومت کی پالیسیوں کو پذیرائی ملی مگر جو چیز قابو سے باہر تھی وہ مہنگائی تھی۔
حکومت کو بہرحال یقین تھا کہ وہ اپنی میعاد پوری کرلے گی اور ایسے میں اکتوبر 2021 آگیا جب پہلی بار قائد انقلاب کے پاس ڈی جی ISI کے ٹرانسفر کی فائل آئی اور نئے ڈی جی ISI کی تقرری کی۔ بس اس غلطی پر مزید کیا لکھوں کہ اور کچھ نہیں خان صاحب اور ان کے قریبی ساتھی اتنا ہی سوچ لیتے کہ وہ خود حکومت میں کیسے آئے اور یہ جو اتحادی ہیں یہ دراصل کس کے اتحادی ہیں۔ مہنگائی، بزدار اور جنرل باجوہ سے اختلاف، حکومت میں رہتے ہوئے قائد انقلاب کی وہ تین غلطیاں ہیں جن کا فائدہ پی ڈی ایم کے حصے میں آیا۔
پی ڈی ایم کی بڑی بڑی غلطیوں میں عدم اعتماد کے بعد فوری الیکشن نہ کروانا، IMF کے پاس فوراً نہ جانا، پنجاب میں غیر ضروری تجربات، کبھی حمزہ شہباز کو لانے کی صورت میں وزیراعلیٰ بنانے کی غلطی تو کبھی پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا اور پھر ان دونوں محاذ پر ناکامی۔ جس غلطی کا فائدہ خان کو مسلسل ہورہا ہے وہ بے قابو مہنگائی ہے اور یہ وہ جن ہے جو بوتل سے باہر آجائے تو حکمرانوں کو نکال کر ہی دم لیتا ہے۔ ایسے میں اس الیکشن سال میں IMF کا آنا ایسا ہی ہے جیسے ’موت کا فرشتہ‘۔غلطیاں تو اور بھی بہت ہیں دونوں طرف مگر عام طور پر وقت کی اپوزیشن کو ہمیشہ حکومت وقت پر برتری رہتی ہے کیونکہ بہرحال عوام اپنے لئے ریلیف چاہتے ہیں، حکمراں اپنے لئے ریلیف چاہتے ہیں۔ ہمیں انتظار رہے گا مقابلہ برائے سیاسی غلطیوں کے نتائج کا، امید ہے اس بار RTS بند نہیں ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ