کیا آپ جانتے ہیں کہ 2023ء میں آئین پاکستان کی منظوری کے پچاس سال مکمل ہو رہے ہیں؟ یہ آئین 10اپریل 1973ءکو منظور ہوا اور 14اگست 1973ء کو نافد العمل ہوا۔
گزشتہ پچاس سال کے دوران اس آئین کو تین مختلف مواقع پر فوجی ڈکٹیٹروں نے توڑا لیکن یہ آئین تینوں مرتبہ بحال ہوگیا۔تین مرتبہ اس آئین کو پارلیمنٹ کے باہر سے پامال کیاگیا لیکن 2023ء میں آئین پاکستان کو پارلیمنٹ کے اندر سے خطرہ ہے ۔2023ءمیں پاکستان کو ایک سیاسی و معاشی بحران کا سامنا ہے۔اس بحرانی صورتحال میں ریاست پاکستان کو دہشت گردوں کے حملوں نے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔اس صورتحال میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کو امید اور روشنی کی علامت بننا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ یہ آئینی ادارہ بھی سیاست دانوں کیلئے کھیل تماشہ بن گیا ہے ۔
اس کھیل تماشے کا آغاز 2022ءمیں ہوا تھا جب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ایک تحریک عدم اعتماد لائی گئی ۔عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کیلئے غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کئے ۔اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے غیر آئینی عمل سےگریز کیلئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرائے بغیر اسے غیر آئینی قرار دے دیا جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی اور چند منٹ کے اندر صدر عارف علوی نے وزیر اعظم کے اقدام کی توثیق کر دی ۔
معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا اور عدالت نے قاسم خان سوری کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے دیا ۔قومی اسمبلی بحال ہوئی تو تحریک انصاف کے ارکان نے اپنی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ نئے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے فوری طور پر استعفے قبول نہیں کئے وہ تحریک انصاف کو ایوان میں واپسی کا پیغام دیتے رہے جب تحریک انصاف نے واپسی کا اشارہ دیا تو اسپیکر صاحب نے ان کے استعفے قبول کرلئے۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ آئین کے تحت دونوں صوبوں کے گورنر صاحبان کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دینی تھی۔
مگر دونوں صوبوں کے گورنر صاحبان نے اب تک تاریخ نہیں دی۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ شہباز شریف کی مخلوظ حکومت موجودہ قومی اسمبلی کی مدت میں کم از کم چھ ماہ کا اضافہ کرنا چاہتی ہے ۔اس اسمبلی کی مدت اگست میں پوری ہو گی اور اکتوبر 2023ء میں نیا الیکشن ضروری ہے لیکن کچھ صاحبان اقتدار معاشی مسائل کی آڑ میں انتخابات کو 2024ء تک ملتوی کرنا چاہتے ہیں جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ۔دوسرے الفاظ میں آئین پاکستان کو اپنی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر فوجی ڈکٹیٹروں سے نہیں بلکہ سیاسی و ذاتی مفادات کے اسیر سیاست دانوں سے خطرہ ہے۔
یہ پہلو بڑا قابل غور ہے کہ وفاق یا صوبوں میں انتخابات کے التوا سے آئین کی جن دفعات کی خلاف ورزی ہو گی ان میںسے کچھ دفعات 18ویں ترمیم کے ذریعے اس آئین میں شامل کی گئی تھیں۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین کی دفعہ 105اور 224میں کچھ اضافے کئے گئے ۔105کی ذیلی دفعہ تین کے تحت صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد گورنر کو صرف نگران کابینہ تشکیل نہیں دینی بلکہ نوے دن کے اندر نئے انتخابات کی تاریخ بھی دینی ہے ۔دفعہ 224میں ذیلی دفعہ ون بی شامل کی گئی جو کہتی ہے کہ وفاق اور صوبوں میں نگران کابینہ میں شامل ارکان کے خاندان کے افراد نئے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
224کی ذیلی دفعہ دو کے مطابق قومی یا صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے نوے دن کے اندر نئے انتخابات منعقد ہونگے جن کے نتائج 14دن کے اندر سامنے لانا ضروری ہونگے ۔2010ء میں 18ویں ترمیم کا ڈرافٹ تیار کرنے والی آئینی کمیٹی کے سربراہ سنیٹر رضا ربانی تھے اور اس کمیٹی میں موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف،مولانا فضل الرحمان، موجودہ وفاقی کابینہ کے ارکان سید نوید قمر، اسحاق ڈار، احسن اقبال، وسیم سجاد ، ایس ایم ظفر، فاروق ستار، افراسیاب خٹک، حاجی عدیل، اسرار اللہ زہری، پروفیسر خورشید احمد، حاصل بزنجو اور آفتاب شیر پائو سمیت دیگر اہم سیاست دان شامل تھے ۔
ان سب نے مل کر آئین پاکستان میں سے جنرل ضیاالحق کا نام نکالا صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دیا تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے پر پابندی ختم کی، بہت سے اختیارات وفاق سے صوبوں اور صوبوں سے بلدیاتی اداروں کو منتقل کئے ۔18ویں ترمیم کا اصل کریڈٹ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے جنہوں نے صدر کے بے پناہ اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کر دیئے ۔آئین کی دفعہ چھ میں کچھ ایسے اضافے کرائے گئے کہ صرف آئین توڑنے والے کو نہیں بلکہ آئین شکنی کے عمل میں سہولت کاری کرنے والوں کو بھی غدار قرار دیا گیا اور آئین شکنی کی کسی بھی عدالت سے توثیق کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا۔18ویں ترمیم کا مقصد جمہوری اداروں کی مضبوطی اور آئین شکنی کا راستہ مکمل طور پر بند کرنا تھا ۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اکثر بند کمروں میں 18ویں ترمیم کو شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات سے زیادہ خطرناک قرار دیا کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آئین شکنی کی سزا موت ہے ۔وہ آئین توڑنے کی آرزو دل میں لئے ریٹائر ہو گئے ،ریٹائرمنٹ سے کچھ دن پہلے ’’دل پشوری‘‘ کیلئے مفتاح اسماعیل سے پوچھا کرتے کہ اگر مارشل لا لگ جائے تو پاکستان پر کون کون سی اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں ؟مفتاح بھائی ہاتھ جوڑ کر کہتے خدارا یہ غضب مت کیجئے گا۔جو کام جنرل باجوہ نہ کر سکے وہی کام اب پارلیمنٹ کے اندر سے کرنے کرانے کی خواہشیں اب کوئی راز نہیں رہیں ۔
آصف علی زرداری آج بھی ایک اہم پاورپلیئرہیں انہیں یاد دلانا ہے کہ 2023ء میں اس آئین کی منظوری کے پچاس سال پورے ہو رہے ہیں جسے ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان، مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، غوث بخش بزنجو اور دیگر بزرگوں کے ساتھ مل کر بنایا۔راجہ پرویز اشرف اس آئینی کمیٹی کے رکن تھے جس نے 2010ء میں 18ویں ترمیم کا ڈرافٹ تیار کیا۔ اسحاق ڈار اور احسن اقبال بھی اس کمیٹی کے رکن تھے ان اصحاب کی موجودگی میں آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے ۔وفاق اور صوبوں میں انتخابات وقت پر کرانے ہونگے انتخابات سے بھاگنے کیلئے غیر آئینی رویہ اختیار کیا گیا تو پھر راجہ پرویز اشرف اور قاسم خان سوری میں کیا فرق رہ جائے گا ؟1973ءکا آئین ہماری واحد متفقہ قومی دستاویز ہے اب ہم دوسرا آئین نہیں بنا سکتے ۔اس آئین کا تحفظ پاکستان کا تحفظ ہے اگر اس پارلیمنٹ نے آئین کو تحفظ نہ دیا تو پھر یہ ذمہ داری عدلیہ اور فوج کی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ