دنیا آگے کی طرف جا رہی ہے لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ ہمیں پیچھے کی طرف لے جا رہا ہے۔
پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان نے سیاسی مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے لئے بڑی بڑی مونچھوں والے ملک امیر محمد خان کو گورنر پنجاب بنایا تھا۔ یہ گورنر صاحب نواب آف کالا باغ کہلاتے تھے۔ نواب صاحب کے ظرف کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں نظمیں پڑھنے والے شاعر حبیب جالب کو شراب نوشی کے مقدمے میں گرفتار کرا دیا۔
جالب صاحب کچھ دن جیل میں گزارتے اور رہائی کے بعد پھر سے جنرل ایوب خان کے دستور کو صبح بے نور قرار دینے لگتے۔ آخر کار نواب آف کالا باغ نے لاہور کے ایک نامی گرامی غنڈے بائو وارث کی خدمات حاصل کیں اور اس غنڈے نے جالب صاحب پر الزام لگا دیا کہ شاعر عوام نے چاقو سے اس پر حملہ کیا۔ پولیس نے چھاپہ مار کر جالب صاحب سے اقدام قتل کی مبینہ واردات میں استعمال ہونے والا چاقو اور ساتھ میں شراب کی دو بوتلیں بھی برآمد کرلیں۔ جالب صاحب کو عدالت میں لایا گیا تو میاں محمود علی قصوری نے جج سے کہا کہ جالب تو کسی کو آنکھ نہیں مار سکتا یہ چاقو کیا مارے گا؟ جج صاحب مسکرائے اور جالب کی ضمانت منظور کرلی۔
عرض یہ کرنا تھا کہ جس قسم کے مقدمات نواب آف کالا باغ شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور سیاستدانوں پر بناتا تھا ویسے ہی مقدمات آج کل بھی بنائے جا رہے ہیں۔ پاکستان ایک عجیب ملک ہے جہاں تاریخ بار بار اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن حکمران طبقہ سبق سیکھنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔ حکومتوں میں چہرے تو بدل جاتے ہیں لیکن نواب آف کالا باغ جیسے انداز نہیں بدلتے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جالب جیسے باغیوں نے پہلے جنرل ایوب خان کی قید کاٹی، پھر ذوالفقار علی بھٹو کے قیدی بنے اور پھر جنرل ضیاء الحق کے قیدی بنے۔ جنرل ضیاء کے دور میں جالب صاحب بہت سے دیگر سیاسی قیدیوں کے ساتھ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں بند تھے۔ حکومت کی کوشش ہوتی تھی کہ سیاسی قیدی کوئی خاموش سمجھوتہ کرکے رہا ہو جائیں۔ ایک دفعہ جالب صاحب نے اس قسم کے سمجھوتوں کے خلاف جیل میں ایک نظم لکھ ڈالی۔
دوستوں جگ ہنسائی نہ مانگو
موت مانگو رہائی نہ مانگو
ہم نے جب میدان صحافت میں قدم رکھا تو جنرل ضیاء کی آمریت اپنے عروج پر تھی۔ اس دور آمریت میں آزادی صحافت کا پرچم بلند کرنے والوں میں منہاج برنا، نثار عثمانی، حسین نقی، آئی اے رحمان اور عبدالحمید چھاپرا آگے آگے تھے۔ نوجوان نسل کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف پہلی منظم مزاحمت کسی سیاسی جماعت نے شروع نہیں کی تھی بلکہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس نے 1978ء میں شروع کی تھی۔
منہاج برنا اور نثار عثمانی نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی کارکن صحافیوں کی جبری برطرفیوں کے خلاف مزاحمت کی اور جب جنرل ضیاء الحق نے اخبارات پر سنسر شپ عائد کی اور حکومت کے ناقدین کو نوکریوں سے نکلوانا شروع کیا تو پی ایف یو جے نے 1978ء میں کراچی سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک میں سینکڑوں صحافیوں نے ملک بھر میں گرفتاریاں دیں اور کئی صحافیوں نے کوڑے بھی کھائے۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں میں خواتین صحافی بھی شامل تھیں۔ اس جیل بھرو تحریک کی کہانی احفاظ الرحمٰن کی کتاب ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ میں محفوظ ہے۔
اس تحریک میں سیاسی کارکنوں اور مزدور تنظیموں نے بھی صحافیوں کا ساتھ دیا تھا اور اس تحریک کا زور توڑنے کے لئے پی ایف یو جے کو تقسیم کردیاگیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پی ایف یو جے کے مزید حصے بخرے کردیئے گئے۔ ایک طرف سیاسی جماعتوں کو توڑا گیا دوسری طرف صحافیوں اور وکلاء کی تنظیموں میں گروپنگ پیدا کی گئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ اہل سیاست و صحافت میں گروپنگ پیدا کرنے والے خود گروپنگ کا شکار ہیں۔ آج سیاسی اختلاف ذاتی دشمنی بن چکا ہے۔ تضادات کا یہ عالم ہے کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن طالبان سے بات چیت کے لئے تیار ہیں لیکن آپس میں بات چیت کے لئے تیار نہیں۔
پچاس ساٹھ سال پہلے نواب آف کالا باغ ’’توہین ایوب خان‘‘ کی پاداش میں حبیب جالب پر شراب نوشی کے مقدمات بناتا تھا آج کل اس قسم کے مقدمے ’’توہین بلاول‘‘ پر بن رہے ہیں۔ یہ کوئی راز نہیں کہ شیخ رشید احمد کے میرے ساتھ تعلقات کئی برسوں سے بہت کشیدہ ہیں۔ اس کشیدگی کی وجہ عمران خان بنے تھے۔ میرے ایک ٹی وی شو میں دونوں میں تلخ کلامی ہوگئی تھی۔
شیخ صاحب نے عمران خان کو دو ٹکے کا کپتان قرار دیا۔ جب شیخ صاحب نے خان کے قریب آنے کی کوشش کی تو خان صاحب مجھے فرمائش کرتے کہ ذرا شیخ رشید احمد کا وہ ’’دو ٹکے کا کپتان‘‘ والا کلپ تو چلائو۔ 2008ء میں آصف علی زرداری صدر مملکت بن گئے تو کچھ عرصہ کے بعد شیخ صاحب نے ان کی خاموش حمایت سے ایک ضمنی الیکشن لڑا تھا۔ اس الیکشن سے دو دن قبل کیپیٹل ٹاک میں شیخ صاحب کے پیپلز پارٹی کیخلاف کئی پرانے بیانات نشر کر دیئے گئے۔ شیخ صاحب الیکشن ہار گئے اور انہوں نے سگار کا دھواں چھوڑتے ہوئے مجھ پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ اب شیخ صاحب کی واحد آپشن عمران خان تھے لہٰذا ’’دو ٹکے کا کپتان‘‘ ان کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ ایک دفعہ عمران خان نے مجھے بنی گالا بلایا اور شیخ صاحب کی میرے ساتھ جپھی بھی ڈلوائی لیکن یہ جپھی فیل ہوگئی۔
کچھ دن پہلے شیخ رشید احمد کو شراب نوشی اور ’’توہین بلاول‘‘ میں گرفتار کیا گیا تو میں نے اس گرفتاری کی مذمت کی۔ شہباز شریف حکومت کے ایک وزیر نے مجھے طعنہ دیا کہ یہ وہی شیخ رشید احمدہے جس نے آپ پر جھوٹے الزامات لگائے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر شیخ صاحب نے میرے خلاف جھوٹ بولا تو میں اسکے خلاف جھوٹ پر خاموش کیوں رہوں؟میں نے گزارش کی کہ جنرل باجوہ نے حنیف عباسی اور عمران خان نے رانا ثناء اللہ پر منشیات فروشی کے جھوٹے مقدمات بنوائے تھے آپ بھی وہی کام کریں گے تو دونوں میں فرق کیا رہ جائے گا؟ وزیر صاحب نے فرمایا کہ آپ کو ہر اپوزیشن کا ساتھ دینے کی بیماری ہے اور بیماری ناقابل علاج ہے۔ مجھے عمران خان یا تحریک انصاف سے کسی خیر کی توقع نہیں لیکن ان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہئے۔ اب خان صاحب نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کردیا ہے۔ ایسی تحریک کے لئے منہاج برنا اور نثار عثمانی جیسا حوصلہ چاہئے۔ اب وہ جالب کہاں سے آئے گا جس نے کہا تھا ؎
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتائو
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
بشکریہ روزنامہ جنگ