یہ اس زمانے کی بات ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اور آج کے وزیر اعظم شہباز شریف اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید تھے۔
جیل میں ان سے ملاقات کرنا بہت مشکل تھا، صرف خاندان کے لوگ ہی ملاقات کر سکتے تھے۔ ان کے ایک کزن شاہد شفیع کی مجھ سے کافی مشابہت تھی لہٰذا میں ایک دن شاہد شفیع بن کر شہباز شریف سے ملاقات کے لئے اڈیالہ جیل پہنچ گیا۔ ملاقات کے دوران شہباز شریف نے ایک چھوٹے سے ریڈیو پر فرمائشی فلمی نغموں کا پروگرام لگا دیا۔ وہ بار بار مجھے ’’میر صاحب اوہ سوری شاہد صاحب‘‘ کہتے اور پھر فرماتے کہ میں نے آپ کو لتا منگیشکر کے گانے سنانے کی زحمت اس لئے دی ہے تاکہ کوئی دوسرا ہماری گفتگو ریکارڈ نہ کرسکے۔
میں نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا گانا لگا دینے سے ریکارڈنگ رک جاتی ہے؟ شہباز شریف صاحب نے ایک ماہر جاسوس کے انداز میں بتایا کہ اگر میوزک لگا کر آپس میں گفتگو کی جائے تو ٹیپنگ میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ ان کی ضرورت سے زیادہ احتیاط پسندی میرے مزاج کے خلاف تھی لہٰذا میں نے بڑی لاپرواہی سے کہا کہ ہم نے ملک کے خلاف تو کوئی سازش نہیں کرنی پھر اتنی احتیاط کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سن کر شہباز شریف صاحب نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی کو زور زور سے ہلا کر کہا کہ یہ احتیاط صرف آپ کے لئے ہے،’’ میر صاحب اوہ سوری شاہد صاحب‘‘میں نہیں چاہتا کہ آپ کا وائس ڈیٹا کہیں محفوظ ہو جائے۔
ملاقات ختم ہوئی تو ایک سنتری نے کان میں کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ آپ کو ملنا چاہتے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب بڑے احترام سے ملے اور سرگوشی کے انداز میں کہا کہ پتہ نہیں آپ میر صاحب ہیں یا شاہد صاحب لیکن آئندہ تشریف لائیں تو خیال کریں کہ یہاں صرف آوازیں نہیں شکلیں بھی ریکارڈ ہو جاتی ہیں۔ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی اور میں ایک پابند سلاسل سیاستدان کی احتیاط پسندی کا جنازہ لے کر جیل سے واپس آگیا۔ اگلے ہی روز صدر فاروق لغاری کا بلاوا آگیا۔ میرا خیال تھا کہ وہاں اور لوگ بھی ہوں گے لیکن اس دن صرف میں ہی تھا۔
صدر صاحب نے پہلا سوال یہ پوچھا کہ ’’شہباز سے ملاقات کیسی رہی؟‘‘ اس سوال نے مجھے ایک چھوٹا سا جھٹکا دیا، لیکن میں نے خود کو سنبھال کر کہا کہ وہ بتا رہے تھے کہ ان کے نواز شریف کے ساتھ تعلقات بالکل ٹھیک ہیں اور وہ اپنے بھائی کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یہ سن کر جناب صدر نے کہا ،وہ بالکل ٹھیک کہتا ہے، یہ عورت جھوٹ بولتی ہے کہ شہباز اور نواز کے تعلقات خراب ہیں۔ میں نے صدر سے پوچھا، کون عورت؟ صدر نے بڑے زہریلے انداز میں کہا، ’’پنکی پرائم منسٹر‘‘۔
صدر فاروق لغاری اپنی نشست سے اٹھے اور انہوں نے ٹیلی ویژن کی آواز اونچی کر دی۔ میرے پوچھے بغیر ہی کہنے لگے کہ آج کل انٹیلی جنس بیورو میرے فون ٹیپ کر تی ہے اس لئے ٹیلی ویژن کی آواز اونچی کردی۔ یہ ملاقات دوپہر کو ہوئی تھی۔ شام کو وزیر اعظم صاحبہ نے بلا لیا۔ بہت میٹھے لہجے میں کہا کہ شہباز شریف سے ملاقات کا نہیں پوچھوں گی یہ تو آپ کا کوئی سیکرٹ ہوگا لیکن میرے بھائی فاروق لغاری سے ملاقات کیسی رہی؟ میں نے بھی آئو دیکھا نہ تائو اور سوال داغتے ہوئے کہا، وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ آپ ان کے فون ٹیپ کراتی ہیں، کیا یہ درست ہے؟ جواب ملا۔’’جو لوگ میرے فون ٹیپ کراتے ہیں ان کا پتہ لگانے کے لئے کچھ فون ٹیپ کئے جا سکتے ہیں‘‘۔ یہ پرانی کہانی سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان میں فون ٹیپ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
1996ء میں صدر فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو ان پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ ججوں اور جرنیلوں کے فون ٹیپ کراتی تھیں۔ شہباز شریف کی تمام تر احتیاط پسندی اس وقت بھی ناکام ہوگئی جب ان کی اور جسٹس ملک قیوم کی گفتگو کی ٹیپ سامنے آئی جس میں وہ جج صاحب کو بے نظیر بھٹو کے خلاف جلدی سزا سنانے کی درخواست کر رہے تھے۔ یہ ٹیپ سامنے آئی تو جسٹس ملک قیوم نے کوئی بہانے بازی نہیں کی اور استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔
آج کل سابق وزیر اعظم عمران خان یہ دہائی دے رہے ہیں کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ان کے ٹیلی فون ٹیپ کراتے تھے اور یہ آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے جو ہر شہری کو اس کی پرائیویسی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ خان صاحب کی اس دہائی سے مجھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت یاد آگئی۔
2019ء میں عمران خان وزیر اعظم تھے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ کے سامنے کہا تھا کہ میرے یا میرے خاندان کے ٹیلی فون ٹیپ کرنا آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے۔ کاش اس وقت عمران خان پوچھتے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کا ٹیلی فون کس نے ٹیپ کیا؟ لیکن وہ تو سپریم کور ٹ کے ایک جج کے خلاف سازش میں خود شریک تھے۔
ان کا وزیر قانون اور وزیر اطلاعات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کردہ ریفرنس کا بھرپور دفاع کیا کرتے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس کا سامنا کیا اور ان پر تمام الزاما ت غلط ثابت ہوئے۔ اب سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اور سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس مظاہر نقوی کے درمیان ہونے والی گفتگو سامنے آئی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اس گفتگو کا تعلق کسی مقدمے سے نہیں بلکہ ایک ٹریفک وارڈن کی طرف سے جج صاحب کی گاڑی روکنے کے واقعہ سے ہے۔ واقعہ کچھ بھی ہو لیکن گفتگو میں ایک سیاستدان جج صاحب کو ’’یار‘‘ کہہ رہا ہے اور جج صاحب اپنے گھر کو چودھری صاحب کا گھر قرار دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد اور سی سی پی او لاہور ڈوگر کی گفتگو کی ٹیپ نے اس معاملے کو مزید تڑکا لگا دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کی طرف سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تحقیقات صرف یہ نہ کی جائیں کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کے کس کس سیاستدان کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں؟ یہ بھی پتہ کریں کہ وزرائے اعظم اور ججوں کے ٹیلی فون کس قانون کے تحت ٹیپ کئے جاتے ہیں؟
2015ء میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے خفیہ اداروں سے پوچھا تھا کہ کس قانون کے تحت عام شہریوں کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں اور کس کس کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں؟ انٹیلی جنس بیورو نے عدالت میں پانچ ہزار افراد کی فہرست پیش کی تھی اور بتایا کہ ٹیلی کمیونی کیشنز ایکٹ 1996ء اور فیئر ٹرائل ایکٹ 2013ء کے تحت لوگوں کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں۔
آئی ایس آئی نے عدالت کو تحریری وضاحت نہیں دی بلکہ وہ ثاقب نثار کے ساتھ ملاقات کرکے واپس چلے گئے۔ میں نے تو ٹیلی فون پر مبینہ گفتگو کی بنیاد پر نو سال تک مختلف علاقوں میں مقدمات بھگتے ہیں۔ عدالت کبھی یہ نہیں پوچھتی تھی کہ یہ گفتگو کس نے ٹیپ کی لیکن میرے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کر دیا جاتا تھا۔ فرانزک ٹیسٹ میں پتہ چلتا تھا کہ میرے خلاف پیش کی جانے والی ٹیپ جعلی نکلی لیکن اس دوران میرے اپنے ہی اینکر ساتھی میرا ٹرائل مکمل کر چکے ہوتے تھے۔
میں اگربطور صحافی ٹیلی فون پر گفتگو کی بنیاد پر مقدمات کا سامنا کرسکتا ہوں تو کوئی اور یہ سامنا کیوں نہیں کرسکتا؟ پاکستان کا قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ بتانا پڑے گا کہ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فون کون ٹیپ کرتا تھا اور جب شہباز شریف وزیر اعظم ہیں تو ان سمیت جسٹس مظاہر نقوی کا فون کون ٹیپ کرتا ہے اور چودھری پرویز الٰہی ایک جج کو اپنا ’’یار‘‘ کیوں سمجھتے ہیں؟
بشکریہ روزنامہ جنگ