یہ ایک ایسے مصور کی کی کہانی ہے جو اکیس سال تک مختلف قید خانوں میں اپنے درد کو کبھی آنسوئوں میں بہاتا رہا اور کبھی اس درد کو رنگوں کے ذریعے کاغذ پر بکھیرتا رہا۔ اس دکھی مصور کی بنائی ہوئی تصویروں میں چاند سے محبت اور غلامی سے نفرت بڑی نمایاں تھی۔ اکیس سال کے بعد وہ ایک چھوٹی قید سے رہائی پا کر بڑی قید میں جا چکا ہے۔ پہلی قید میں وہ صرف اپنی آزادی کے خواب دیکھتا تھا۔ دوسری قید میں اسے اپنا خاندان ، شہر اور پوری قوم زنجیروں میں جکڑی نظر آ رہی ہے۔ اس بدقسمت مصور کا نام محمد احمد غلام ربانی ہے جو اپنے بھائی عبدالرحیم غلام ربانی کے ہمراہ اکیس سال بعد امریکہ سے رہا ہو کر واپس پاکستان پہنچ چکا ہے۔ احمد ربانی کا نام کئی سال پہلے میں نے ایک برطانوی وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ کی زبانی سنا تھا جو امریکہ کی بدنام زمانہ گوانتاناموبے جیل میں بند کئی قیدیوں کی رہائی کے لئے قانونی جنگ میں مصروف تھا۔ کلائیو نے احمد ربانی کی بنائی گئی تصویروں میں چھپے درد کو دنیا سے بانٹا اور پھر اس کے ذریعے احمد ربانی کا ایک ’’درد نامہ‘‘ امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز میں شائع ہوا۔ احمد ربانی نے لکھا کہ ’’کبھی میں بھی ایک انسان تھا۔ میری بھی ایک پہچان تھی لیکن اب میری پہچان صرف قیدی نمبر 1461 ہے جسے 2002ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے کراچی سے پکڑ کر امریکہ کو بیچ دیا‘‘۔
حیران کن پہلو یہ تھا کہ احمد ربانی اور اس کے بھائی عبدالرحیم ربانی کو امریکیوں نے دو دہائیوں تک اپنی جیلوں میں رکھا اور اس دوران دونوں پر کوئی الزام لگایا نہ ہی کوئی ٹرائل کیا البتہ دونوں پر تشدد کرکے مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا اعتراف کرلیں لیکن دونوں نے ایسا کوئی اعتراف نہ کیا۔ احمد ربانی اور اس کے بھائی کی کہانی صرف امریکی حکومت کے ظلم و ستم کی کہانی نہیں ہے۔ یہ پاکستان کے بالادست طبقے کی وطن فروشی کی بھی ایک ہوشربا کہانی ہے جس میں چار ہزار سے زائد پاکستانیوں کو صرف پانچ پانچ ہزار ڈالر کے عوض امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک کے ہاتھوں بیچ دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر پاکستان کو سب سے پیچھے دھکیل دیا۔ جنرل مشرف کی حکومت صرف امریکہ کو نہیں بلکہ برطانیہ، فرانس، مصر، سعودی عرب، اردن، سوڈان اور موریطانیہ سمیت دیگر ممالک کو بھی بندے پکڑ پکڑ کر فروخت کرتی تھی۔ لیبیا میں کرنل قذافی کا اقتدار ختم ہوا تو اس کی جیلوں میں سے ایسے کئی قیدیوں کو رہائی ملی جو افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کرنے آئے تھے لیکن قذافی نے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی حکومت نے انہیں پکڑ کر امریکہ کو بیچا اور امریکہ نے انہیں قذافی کے حوالے کردیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی بردہ فروشی کا اعتراف ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ کے انگریزی ایڈیشن میں تو کیا لیکن ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نام سے موصوف کی کتاب کا اردو ترجمہ شائع ہوا تو بردہ فروشی کا ذکر گول کردیا گیا۔
پاکستان کے بردہ فروش حکمراں جب اگلے جہان کو سدھارتے ہیں تو ان کے بیرون ملک بینک اکائونٹوں میں کروڑوں ڈالر موجود ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی حکومت اس بردہ فروشی کے باوجود ایک ایک ڈالر کی محتاج ہے۔ نائن الیون کے بعد قومی مفاد کے نام پر پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بنایا گیا لیکن ہمارے حکمران نہ تو پاکستان کی معیشت بچاسکے نہ دہشت گردی سے ہمیں نجات دلا سکے۔ اس عالمی کھیل میں عافیہ صدیقی پاکستان کے آئین و قانون کی بے بسی کا استعارہ بن گئی اور کسی آئین پسند جج کو احمد ربانی جیسے مظلوم پاکستانیوں کی امریکہ کو فروخت کا ازخود نوٹس لینے کی ہمت نہ ہوئی۔ ہم جیسے کمزور لوگوں نے جب بھی عافیہ صدیقی یا احمد ربانی کے لئے آواز اٹھائی تو ہمیں دہشت گردوں کا ہمدرد قرار دے دیا گیا۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ 2002ء میں امریکہ نے پاکستانی اداروں سے کہا کہ انہیں حسن گل نام کا ایک آدمی چاہئے جو اسامہ بن لادن کے لئے کام کرتا تھا۔ یہ آدمی سعودی عرب میں پیدا ہوا تھا لیکن پاکستانی شہری تھا اور روانی سے عربی بولتا تھا۔ پاکستانی اداروں کو حسن گل تو نہ ملا البتہ انہیں احمد ربانی کے بارے میں علم تھا کہ یہ شخص سعودی عرب میں پیدا ہوا لیکن کراچی میں رکشہ چلاتا تھا۔ سعودی حکومت نے اسے جعلی دستاویزات پر ملازمت حاصل کرنے کے الزام میں ڈی پورٹ کردیا تھا۔ احمد ربانی بھی اچھی عربی بولتا تھا لہٰذا ربانی اور اس کے بھائی عبدالرحیم ربانی کو حسن گل اور اس کا ساتھی بناکر امریکہ کو بیچ دیا گیا۔ امریکی ان دونوں کو کابل کی بگرام جیل لے گئے۔ وہاں ان پر دن رات تشدد ہوا اور پھر وہاں سے انہیں گوانتا نامو بے بھیج دیا گیا۔
قدرت کے کام دیکھئے۔ اصلی حسن گل 2004ء میں عراقی کردستان سے پکڑا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کے خطوط لے کر ابومصعب الرزقاوی کے پاس جاتا تھا۔ امریکیوں نے دو سال تک اس کی تفتیش کی۔ اس سے کوئی خاص انفارمیشن نہ ملی تو اسے پاکستان کے حوالے کردیا گیا اور پاکستانیوں نے2007ٍء میں اسے رہا کردیا۔ یہ صاحب 2012ء میں شمالی وزیرستان میں ایک ڈرون حملے کا شکار ہوگئے۔ احمد ربانی کو حسن گل سمجھ کر گرفتار کیاگیا لیکن سارا بھید کھل جانے کے بعد بھی احمد ربانی کو رہا نہ کیا گیا تا کہ وہ رہائی کے بعد دنیا کو یہ نہ بتا دے کہ دنیا کی طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسیاں کتنی نالائق ہیں۔ جنوری 2022ء میں سینیٹ آف پاکستان میں سینیٹر مشتاق احمد خان نے یہ سوال اٹھایا کہ احمد ربانی اور ان کے بھائی کو بغیر ٹرائل کے امریکی قید میں کیوں رکھا گیا ہے؟۔اس وقت کے وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے سوال کا سیدھا جواب دینے کی بجائے سینیٹر مشتاق احمد خان کی ذات پر حملے شروع کر دیئے۔ آج علی محمد خان کی جماعت تحریک انصاف ریاستی ظلم وستم کا بہت رونا روتی ہے۔ جب اس جماعت کی اپنی حکومت تھی تو اس کے قائد عمران خان نے احمد ربانی اور عافیہ صدیقی کو فراموش کر رکھا تھا۔
کسی کو اچھا لگے یا برا، سچ یہ ہے کہ احمد ربانی پر اکیس سال تک ظلم و ستم کی کہانی دراصل پاکستان کے آئین کی بے بسی کی کہانی ہے۔ ایک پاکستانی شہری کو بغیر ثبوت امریکہ کے ہاتھوں فروخت کردینا آئین پاکستان کی خلاف ورزی تھی۔ اس خلاف ورزی پر جسٹس شیخ ریاض احمد سے لے کر جسٹس عمر عطاء بندیال تک ایک درجن چیف جسٹس خاموش رہے۔ جب بار بار آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو ایک بہادر جج نے سزا سنائی تو 2019ء میں وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ مل کر اس جج کا فیصلہ معطل کروادیا اور فیصلہ معطل کرنے والے جج آج سپریم کورٹ میں بیٹھے ہیں۔ مشرف کو بچانے والے سب لوگ آج آپس میں دست و گریبان ہیں اور احمد ربانی حیران ہے کہ وہ امریکہ کی جیل سے تو نکل آیا لیکن اس نئی جیل سے کیسے نکلے گا جہاں پورا پاکستان ہی آئی ایم ایف کی قید میں ہے؟ کیا کسی میں اتنی غیرت ہے کہ احمد ربانی سے ایک سوری ہی بول دے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ