اس انداز تخاطب پر یقیناً تعجب تو ہوا ہوگا کیونکہ جب جمہوریت پر شب خون مارنے والے فوجی ڈکٹیٹر اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد عوام سے مخاطب ہوتے ہیں تو ان کی تقریر کا آغاز کم وبیش انہی الفاظ سے ہوتا ہے۔ میں آئین پاکستان ہوں اور ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ کی اصطلاح میں اس ظلم اور جبر کی کہانی مضمر ہے جو برسہا برس سے مجھ پر ڈھائے گئے۔ میں ابھی رحم مادرمیں تھا کہ ابتلاو آزمائش کا دور شروع ہوگیا۔ 24اکتوبر 1954ء کو میری ماں یعنی دستور ساز اسمبلی پر جان لیوا حملہ ہوا، مجھے والدہ کی کوکھ میں ہی قتل کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔

میں نے سندھ ہائیکورٹ کے دروازے پر دستک دی،چیف جسٹس جارج کانسٹنٹائن نے میری داد رسی کی ۔ مگر وہ ستم گر سپریم کورٹ جو تب فیڈرل کورٹ کہلاتی تھی، وہاں چلے گئے۔ مجھے توقع تھی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں انصاف ہوگا مگر مسند انصاف پر متمکن جسٹس منیر نامی شخص نے مجھے نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ میں چیختا رہا ،دہائی دیتا رہا مگر کسی نے میری آہ وبکا نہیں سنی۔میری ماں اور میں زمانے کی ٹھوکریں کھاتے رہے مگر ہار نہیں مانی۔ 23مارچ 1956ء کو میرا جنم ہوا مگر عہد طفولیت میں ہی میرا گلہ گھونٹ دیا گیا۔

7اکتوبر 1958ء کو ایوب خان نامی جرنیل نے اسکندر مرزا کیساتھ ساز باز کرکے مجھے مشق ستم بنایا۔ مجھے انصاف کی توقع نہیں تھی۔میں جسٹس منیر کی عدالت میں جانے اور ایک نئی ٹھوکر کھا کر واپس آنے کا روادار نہیں تھا۔ مگر مجھے پابجولاں گھسیٹ کر وفاقی عدالت کی دہلیز پر لایا گیا اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے بتایا گیا کہ آئین پاکستان نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ بلوچستان کے علاقہ لورالائی کے مکین دوسو نے 1958ء میں ایک شخص کو قتل کردیا۔ تب لورالائی قبائلی علاقے میں شمار ہوتا تھا چنانچہ دوسو کو گرفتار کرکے لویہ جرگہ کے حوالے کردیا گیا۔ جرگے نے سماعت کے بعد دوسو کو قتل کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزا سنادی تو اس نے لاہور ہائیکورٹ، جو تب مغربی پاکستان ہائیکورٹ کہلاتی تھی، وہاں اپیل دائر کردی۔ ہائیکورٹ نے دوسو کو بری کردیا مگر وفاقی حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

ایک عام شہری کے اس مقدمے کو اسلئے تاریخی حیثیت حاصل ہوگئی کہ اسکی آڑ میں جسٹس منیر نے ایک بار پھر نظریہ ضرورت کو بروئے کار لاتے ہوئے 7اکتوبر 1958ء کو نافذ کئے گئے مارشل لا کو قانونی جواز فراہم کردیا۔ دو سو کیس پراپیل مارشل لا کے نفاذ سے پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر التوا تھی، اگر عدالت چاہتی تو مارشل لا کی خاردار جھاڑیوں کے قریب آئے بغیر اس مقدمے کا فیصلہ کر سکتی تھی مگر جسٹس منیر نے ایک بار پھر ایوب خان سے دوستی کا حق ادا کیا ۔ عدالت کے روبرو سوال تو یہ تھا کہ آیا صدر کی طرف سے قوانین کا نفاذ جاری رکھنے کے حکم کی دفعہ 7آرٹیکل ون کے تحت کالعدم ہو گئی ہے یا نہیں؟ مگر سپریم کورٹ نے یہ تاویل پیش کرکے مارشل لا کو جائز قرار دے دیا کہ فوجی بغاوت کامیابی کی صورت میں آئین تبدیل کرنے کی مجاز ہے اور ایسی صورت میں عدالتوں کا دائرہ کار بھی برقرار نہیں رہتا ۔

اس استدلال کیساتھ جسٹس منیر اور بنچ میں شامل دیگر جج صاحبان نے معمولی ردوبدل کیساتھ نہ صرف اعلیٰ عدالتوں کو رِٹ جاری کرنے سے محروم کردیا بلکہ مارشل لا کو بھی جائز اور قانونی قرار دیدیا ۔سپریم کورٹ نے 27اکتوبر 1958ء کو یہ فیصلہ سنایا اور اسی شام چار جرنیلوں نے ایوان صدر میں داخل ہو کر صدر سکندر مرزا سے گن پوائنٹ پر استعفیٰ لے لیا ۔یوں ایوب خان کے فوجی انقلاب کی کارروائی مکمل ہوئی اور وہ ملک کےسیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ بہرحال 14اگست 1973ء کو میں نے دوسری بار جنم لیا ۔مجھے طویل عمر کی دعائیں دی گئیں ۔ اسلام آباد کی ایک مرکزی سڑک کو مجھ سے منسوب کرتے ہوئے شاہرہ دستور قرار دیا گیا ۔میری پیدائش کے نتیجے میں شاہراہ دستور پر ایستادہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ’سپریم کورٹ‘ سمیت کئی اداروں نے جنم لیا۔ مگر میرے کچھ بچے بہت ناخلف اور گستاخ ثابت ہوئے۔5جولائی 1977ء کو ضیاالحق نے نہ صرف مجھے چوٹ پہنچائی بلکہ مجھے جنم دینے والی پارلیمنٹ پر تشدد بھی کیا۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان جنہوں نے میری پاسداری کا حلف اُٹھا رکھا تھا ،وہ فوجی ڈکٹیٹر کیساتھ شریک جرم بن گئے۔ چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے غیر قانونی حکومت میں گورنر کا منصب قبول کرلیا ۔طرفہ تماشا یہ ہوا کہ جسٹس اسلم ریاض حسین جو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے اور اپنی سربراہی میں تشکیل دیئے گئے بینچ کے ذریعے بھٹو حکومت کے دوران تین شہروں میں لگائے گئے مارشل لا کو غیرآئینی قرار دے چکے تھے ،انہوں نے بھی نہ صرف مارشل لا کو قبول کرلیا بلکہ پنجاب کے قائم مقام گورنر کی حیثیت سے حلف اُٹھا لیا۔ مگر اتمام حجت کی غرض سے میں نے نصرت بھٹو کیس کے ذریعے اس ظلم کیخلاف آواز اُٹھائی۔ چیف جسٹس انوارالحق کی عدالت نے اس غیر آئینی اقدام پر مہر تصدیق ثبت کردی اور مجھے دھکے دیکر باہر نکال دیا گیا۔

12اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے میری والدہ اور میرے ساتھ وہی بدترین سلوک کیا جو ضیا الحق نے روا رکھا تھا۔اس بار میں ظفر علی شاہ کا ہاتھ تھام کر ملک کی سب سے بڑی عدالت پہنچا مگر چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے نظریہ ضرورت کے تحت نہ صرف پرویز مشرف کے اقدامات کو جائز قرار دے دیا بلکہ مجھے اس سنگدل شخص کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ چند روز قبل دعویٰ کیا گیا کہ میں نے کسی کے دروازے پر دستک دی ہے ۔حضور! ’’ جو چاہےآپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘،میں تو صرف یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر تہمت نہ لگائیں ۔میں نے کوئی دستک نہیں دی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ