جیسے جیسے ملک کے حالات خراب ہو رہے ہیں ویسے ویسے سیاستدانوں کے رویوں کو دیکھ کر سیاست سے نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔

ایسے حالات میں تو کسی سنگدل سے سنگدل شخص کا دل بھی نرم پڑ جاتا ہے لیکن نجانے ہمارے سیاستدانوں کے دل اور دماغ میں کیا بھرا ہوا ہے کہ وہ ان بدترین حالات میں بھی اس ملک کا نہیں سوچ رہے جس کی وجہ سے اُن کی سیاست زندہ ہے اور جس کی وجہ سے وہ باری باری اقتدار کا مزا لیتے ہیں۔بھئی یہ وقت ملک بچانے کا ہے جس کے لئے سیاستدانوں سے صرف ایک ہی مطالبہ اور ایک ہی توقع ہے کہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے، اس ملک کو ان مشکل حالات سےنکالنے کے لئے ایک ساتھ بیٹھ جائیں۔

پاکستان کی خاطر، اس قوم کی خاطر اپنی اپنی انا اور ضد کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کو بچا لیں لیکن یہ ایسےپتھر دل ہیں کہ سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی کہ ملک کو شدید خطرات لاحق ہیں، جن کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے،ایک ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔حکومت کرنے والے اپنے مخالف کو فتنہ اور نجانے کیسے کیسے القابات دے کر کہتے ہیں کہ اس سے جان چھُڑا کر ہی پاکستان کو بچایا جا سکتا ہے۔ حکومتی اتحاد اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں الیکشن کرانے کے لئے تیار نہیں۔ آئین جو مرضی کہے

سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آ گیا ، پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا بھی اعلان ہو گیا، خیبر پختون خوا میں بھی ایک دو دن میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جائے گا لیکن کسی کو اب بھی یقین نہیں کہ الیکشن ہوں گے۔دوسری طرف تحریک انصاف کا سارا زور فوری الیکشن اور اقتدارکے حصول کیلئے ہے جس کی خاطر وہ کوئی بھی راستہ اختیار کرنے پر تیار ہے۔ حکمراں اتحاد اس لئے الیکشن کرانے کے لئے تیار نہیں کہ اُسے معلوم ہے کہ اگر فوری الیکشن ہوتے ہیں تو عمران خان جیت جائے گا۔
دوسری طرف گزشتہ روز عمران خان نے پھر فوری الیکشن کو ہی پاکستان کے مسائل کا حل قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اُس کے تناظر میں وہ سب کو معاف کرنے کے لئے تیار ہیں بشمول اُن کو جنہوں نے اُن کو قتل کرنے کی کوشش کی۔

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ وہ سب کے ساتھ مل بیٹھنے کے لئے راضی ہیں لیکن ساتھ ہی کہہ دیا کہ وہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کے ساتھ بات نہیں کر سکتے۔ یعنی حکمراں اتحاد ن لیگ اورپی پی پی جنہیں وہ چور ڈاکو کہتے ہیں ،اُن سے بات نہیں ہو سکتی۔میری فواد چوہدری صاحب سے بات ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ عمران خان ملک کی خاطر سب کو معاف کرنے اور سب کے ساتھ ملک بیٹھنے کو تیار ہیں۔ میں نے پوچھا کہ وہ تو ساتھ ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ ڈاکووں ،چوروںیعنی ن لیگ اور پی پی پی سے بات نہیں ہو سکتی تو پھر معاملہ کیسے حل ہو گا ؟

اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ خان صاحب کے کہنے کا مطلب ہے کہ وہ کسی بات چیت میں کسی کے کرپشن کیس ختم کرنے پر بات نہیں کر سکتے۔ خان صاحب اگر واقعی یہی چاہتے ہیں تو سب سے بات چیت کرنے کا عندیہ دینے کے ساتھ یہ وضاحت کر دیں کہ بات چیت کا مقصد کسی کے کرپشن کیس ختم کرنا نہیں ہو گا۔ اگر ایسی بات ہے تو یہ عمران خان کی طرف سے اُن کی ماضی کی پالیسی میں ایک ایسی نرمی ہے جسے خوش آمدید کہنا چاہئے۔

وزیر اعظم شہباز شریف بھی ایک دو بار کہہ چکے ہیںکہ سب کو مل بیٹھ کر پاکستان کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن اُن کے وزیر، مشیر اور ن لیگ کے دوسرے رہنما بشمول مریم نواز اپنے مخالف عمران خان کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سیاستدانوں نے اپنے اختلافات کو دشمنی میں بدل لیاہے اور یہ ملک کب سے ترس رہا ہے کہ یہ لوگ اس کی خاطرمل کربیٹھیں لیکن ایسا ہو نہیں رہا ،جس کے نتیجے میں ہمیں آج ایسے معاشی، آئینی، انتظامی بحرانوں کا سامنا ہے جو ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ ہیں۔

سیاستدانوں کے پاس اب بھی وقت ہے ،ملک کو بچانے کے لئے ایک ساتھ مل بیٹھیں، معیشت کو سنبھالنے کے لئے ایک ہو جائیں، مہنگائی کو قابو میں لانے کے لئے اتفاق رائے سے پالیسی بنائیں، ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہی وقت میںالیکشن کا فیصلہ کر کے آئندہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیں، گورننس اور احتساب کے نظام میں بہتری کے لئے مل کر اصلاحات پر کام کریں۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپسی کا راستہ دیں۔ پاکستان کو بچانے کے لئے اپنے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر ملک کے خوشحال مستقبل کے لئے بنیادی اصولوں اور معاشی و انتظامی امور کی بہتری کے لئے اصلاحات کا متفقہ پروگرام دیں، جس پر جس کی بھی حکومت ہو مکمل عمل کیا جائے۔ خدارا ،پاکستان کو بچانے کے اس موقعے کو ضائع مت کیجئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ