ایف آء آر کاٹنا کوئی بڑی بات نہیں اس کے ساتھ اس ایف آء آر کو گھاس نہ ڈالنا یہ تو اور ہی آسان کام ہے۔ ہمارے ہاں پولیس تھانہ اور کورٹ کچھری کی پچز پر خوب سیاسی کھیل کھیلا جاتا ہے۔
انصاف کسی کو ملتا ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن تاریخ پے تاریخ سب کو ملتی ہے۔ قانون جس پہ راضی ہو تو سات سال تک آپ کا کیس نہیں لگ سکتا اگر قانون ناراض ہو جائے تو ایک سال کے اندر آپ کے اوپر ملک بھر میں 80 کے قریب مختلف تھانوں میں آیف آء آرز داخل ہو جاتی ہیں۔ آخر وہ کیا بلا ہے جو ہمارے لیڈران کو آ کر پکڑ لیتی ہے جب ان کو قانون کا بلاوا آ جاتا ہے ؟۔ پ پ پ اور نوازلیگ کے لوگ تو یہ ڈرامہ کرتے رہتے تھے جن کا مذاق اڑانے کیلئے تحریک انصاف موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی۔ لیکن آج کل وہی خطرناک بلا نے زمان پارک کا رخ کر لیا ہے جو عمران خان جیسے امین و صادق لیڈر کی جان نہیں چھوڑ رہی۔ توشہ خانہ کیس میں جاری وارنٹ کا جس طرح مذاق اڑایا گیا وہ ہم سب نے دیکھ لیا اس کے باوجود خان صاحب کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہفتے کا رلیف مل گیا ہے اس کے ساتھ تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی ہے کہ خان صاحب عمر رسیدہ شخص ہیں ان کی زندگی کو بھی خطرہ ہے لہٰذا انہیں ویڈیو لنک کے ذریعے کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بوڑھا تر و تازہ چاک و چوبند کپتان اپنے کھلاڑیوں کا خون گرمانے کیلئے تو ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں لیکن کورٹ میں پیش ہونے کیلئے انہیں اپنی زندگی کی ضمانت چاہئے۔ اخلاقیات اور قانون کا بول بالا کرنے کے درس دینے والے عمران خان صاحب اپنے لیے کچھ الگ ہی سوچتے ہیں۔ گرفتار ہونا یا ہونا یہ قانونی و سیاسی معاملا ہے لیکن ایسے فیصلوں سے ملک بٹ کر رہ گیا ہے لوگوں کے خیالات منتشر ہو گئے ہیں۔ انصاف کی دیوی کے ہاتھ میں تھمی ہوئی ترازو کے پلڑے بھی ایک جیسے نظر نہیں آ رہے۔
نظام شمسی میں کبھی زمین سورج اور چاند کے درمیان آ جاتی ہے تو کبھی چاند سورج اور زمین کے درمیان میں آکر دیرا جمانے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے کہیں مکمل تو کہیں جزوی سورج گرہن اور چاند گرہن کے نظارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں سورج گرہن یا چاند گرہن میں حاملہ عورتیں بیچاریاں سیدھی ہو کر بیٹھ جاتی ہیں جب تک گرہن چلتا ہے تب تک وہ کوئی کام نہیں کرتی اس کے ساتھ ان کے شوہر بیچارے بھی چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان لمحات میں زندگی خوف کے سائرن کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ گرہن لگنے کو کسی بھی صورت اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے میں سالوں سے ایسا گرہن لگا ہوا ہے کہ ہٹنے کا نام تک نہیں لیتا۔ خاص طور ہر سیاست اور مقتدر حلقوں کے بیانیے اور نظریہ کو ایسا گرہن لگا ہوا ہے جو صرف اپنے مفاد کے حصول کے وقت ہٹ جاتا ہے ورنہ اپنے آب و تاب کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار المعروف بابا رحمتے صاحب کا بیان پڑہنے کو ملا جس میں موصول فرماتے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کو مکمل طور ہر صادق و امین کا خطاب نہیں دیا تھا صرف تین ایسے نکات تھے جن پر انہیں صادق و امین قرار دیا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہیں کہ ثاقب نثار نے خان صاحب کو جزوی طور پر صادق و امین قرار دیا تھا۔ یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ صادق و امین کے بھی درجات ہوتے ہیں؟ ہمارے سماج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ سچ نہیں بولتے اور سچ سننے کے عادی نہیں۔ ہم اپنی غلطیوں کے. بہترین وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کے لاجواب منصف ہیں۔ جب ہمارے پاس طاقت و اختیار ہوتا ہے تو سب چیزوں سے بیخبر ہو کر سب صحیح فیصلے کرتے ہیں۔ کسی کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ ہمیں ٹوکے یا روکے۔ ہاں۔لیکن اپنے سے بڑے طاقتور کی ہر بات پر لبیک کرنا اپنے لئے باعث فخر محسوس کرتے ہیں۔
وطن عزیز کے طاقتور لوگوں نے طاقت میں رہ کر جو غلط کام کیئے ان کا اعتراف انہوں نے ریٹائرڈ ہونے کے بعد کیا کاش اگر وہ غلط فیصلے انہوں نے طاقت میں رہ کر نہ کیئے ہوتے تو وہ بلا خوف سینہ تان کر کھڑے ہوتے اور ان کو سچ بولنے کیلئے ریٹائر ہونے کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔ جیسے اب ثاقب نثار صاحب کہہ رہے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد کتاب آئے گی جس میں کافی مواد شامل ہوگا۔ ممکن ہے اس کتاب میں نواز شریف کے سزا کی بھی بات ہو۔ گلگت بلستان کے جج والی آڈیو لیک کا بھی ذکر ہو۔ مریم نواز کو ضمانت نہ دینی کی بات بھی لکھی ہو۔ عمران خان کو کن حالات میں جزوی طور پر صادق و امین کا خطاب دیا گیا اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کا بھی ذکر ہو؟ یہ وہ ممکنہ باتیں ہیں جو نئی نسل جاننا چاہتی ہے۔ اگر ثاقب نثار وہ کتاب اپنی حیاتی میں یہ کتاب منظر عام کریں تو قوم کو پتا لگے کہ آخر سچ کیا ہے؟ ضروری نہیں کہ سب لوگ ثاقب نثار صاحب کی باتوں سے متفق ہوں لیکن یہ ضروری ہے کہ ان کے حیات میں کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آ جائے۔
ہم بھی پڑہنا چاہتے ہیں کہ اس کتاب میں آخر کیا ہے کہ۔موصوف اپنے مرنے کا انتظار کر رہا ہے۔ اگر ماء لارڈ کو خوف ہے کہ ان کی تحریر میں پردہ نشینوں کے نام آنے کے بعد ان کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر وہ زندگی کے خوف سے کتاب نہیں لا رہے تو پھر میری نظر میں ان کا سارا کیریئر داغدار ہے ان کے سارے فیصلے خوف میں کیئے گئے جو سب کے سب مشکوک ہیں جو انسان اپنی زندگی سے اتنا پیار کرتا ہو وہ بیباک ہو کر فیصلے کیسے کر سکتا ہوگا؟ اگر وہ کسی دوستی و تعلق کے بنا پر اپنی زندگی میں تحریر منظر عام پر نہیں لانا چاہتے تو یہ بھی شک کیا جا سکتا ہے کہ۔ان دوستوں کے کہنے پر انہوں نے اپنے فیصلے بھی غلط کیئے ہوں؟ برحال جو بھی ہو ایک بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ ہم بڑے عہدوں پر رہ کر بھی چھوٹے انسان رہے۔ اخلاقیات کی اس منزل تک نہ پہنچ سکے جہاں پر پہنچ کر ہم اپنے کیریئر یا زندگی پر فخر کر سکیں اور ڈنکے کی چوٹ پر اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کر سکیں۔