یہ لندن کی ایک رات تھی، چودھری برادران ڈنرٹیبل پرپاکستان کے ایک جلاوطن سیاست دان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے۔جلاوطن سیاست دان کو پیشکش کی گئی کہ وہ اگر سمجھوتہ کرلیں تو انہیں وزیراعظم بنایا جاسکتا ہے۔
جلاوطن سیاست دان اور اس کے ساتھیوں نے چودھریوں کو ناں کہہ دی اور یوں چودھری برادران کا مشن ناکام ہو گیا۔ یہ جلاوطن سیاست دان جتوئی صاحب تھے اور انہیں فوجی جرنیلوں کی طرف سے سمجھوتے کا پیغام دینے والے چودھری برادران کا تعلق گجرات سے تھا۔ لندن کی ایک رات کی یہ کہانی دراصل اصغر ندیم سید کے نئے ناول ’’جہاں آباد کی گلیاں‘‘ میں بیان کی گئی ہے۔ اس ناول میں اس دور کے کرداروں کو شامل کیا گیا ہے جب پاکستان میں جنرل ضیا کا مارشل لاء نافذ تھا اور بہت سے سیاست دان اور سیاسی کارکن لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے ان کرداروں میں ایک شاعر بھی شامل تھا۔شاعر کی کہانی پاک ٹی ہائوس لاہور سے شروع ہوتی ہے جہاں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر پہنچتی ہے ۔
بہت سے شاعروں کی طرح اس ناول کا مرکزی کردار بھی بھٹو کی پھانسی پر دو نظمیں لکھ ڈالتا ہے ۔سلیم شاہد ان نظموں اور غزلوں کو ’’خوشبو کی شہادت‘‘ کے نام سے کتاب میں شائع کر دیتا ہے پھر اس کتاب پر پابندی لگ جاتی ہے اور بھٹو پر نظمیں اور غزلیں لکھنے والوں کی کمبختی آجاتی ہے ۔ناول کا مرکزی کردار گرفتار ہو جاتا ہے اس پر لاہور کے شاہی قلعے میں ٹارچر ہوتا ہے اس دوران پی آئی اے کا ایک جہاز اغوا ہو جاتا ہے ۔جہاز اغوا کرنے والوں کی طرف سے فوجی حکومت کو سیاسی قیدیوں کی ایک فہرست دی گئی جن میں یہ شاعر بھی شامل تھا ۔فوجی حکومت شاعر سمیت بہت سے قیدیوں کو رہا کر دیتی ہے۔شاعر لندن پہنچتا ہے اور پھر خوشبو کی شہادت کے بطن سے اصغر ندیم سید کا ناول جنم لیتا ہے۔
اس ناول میں جتوئی صاحب اور چودھری برادران کے پورے نام نہیں لکھے گئے البتہ جنرل ضیاالحق، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے کردار پورے نام کے ساتھ موجود ہیں ۔یہ کتاب کہیں حیران اور کہیں پریشان کر دیتی ہے ۔کہیں یہ اصغر ندیم سید کی آپ بیتی لگتی ہے کہیں ایک ناول لگتا ہے جس کے کردار افسانوی ہیں ۔ناول نگار کے خیال میں ’’فیض احمد فیض تو ہمارے لئے ایک رومانوی شاعر سے زیادہ نہیں تھے وہ تو بعد میں ان کی بیٹیوں، دامادوں اور اہلخانہ کے ساتھ متمول لاہور کی اشرافیہ نے اپنے ضمیر کا کفارہ ادا کرنے کیلئے انقلاب کا استعارہ بنا دیا ورنہ فیض صاحب تو معصوم، بس دوگھونٹ لی کر اپنی شاعری سنا کر اتنا کہتےتھے کہ بھئی ہم سے انقلاب کی توقع نہ رکھیں نہ ہم سے جدوجہد کی مشقت طلب کریں بوڑھا جسم اب مار نہیں کھاسکتا‘‘۔
بہت سے لوگ اس ناول میں فیض احمد فیض کے بارے میں کہی گئی باتوں کو محض ایک افسانہ ہی سمجھیں گے کیونکہ فیض صاحب پر تو ان کی زندگی میں بھی بہت سے الزامات لگائے گئے جن کا وہ جواب نہیں دیتے تھے، اس ناول کے مصنف نے جگہ جگہ اپنے مرکزی کردار کو بھی خوب بے نقاب کیا ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں ’’فیض صاحب کو سنبھالنے والی ہر شہر میں ایک خاتون موجود تھی یہاں تک کہ لندن میں بھی ،احمد فراز کو بھی خواتین نے سنبھالا ، دو بیویاں مشکل سے سنبھال سکے۔اب میں نے خود پر نگاہ کی تو میں بھی اس روایت میں آلودہ ثابت ہوا نہ بیوی کو سنبھال سکا نہ بیٹے کو، یہ بھی شاعری ہی کا داغ تھا جس کے باعث میں جلاوطن ٹھہرا اور میرے بس میں کچھ نہ رہا ۔
میں کس شاعر کو دوش دوں۔‘‘ اس ناول میں کسی ایک سیاست دان، شاعر یا صحافی کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا بلکہ پورے معاشرے کی منافقت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کوشش میں ایسی شخصیات کو بھی نہیں بخشا گیا جن کا کم از کم مجھے بہت احترام ہے لیکن اس کی وجہ توازن قائم کرنے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے ۔ناول میں فوج کے سیاسی کردار پر بہت تنقید کی گئی ہے، لندن میں جتوئی صاحب کے فلیٹ پر ناول کے مرکزی کردار کا پاکستان سے آئے دو جرنیلوں سے ہونے والا مکالمہ دراصل پاکستان میں جمہوری اداروں کی کمزوری کی وجوہات بیان کرتا ہے ۔ایک جگہ کہا گیا ہے کہ ’’بھٹو صاحب کی پھانسی صرف بھٹو صاحب کی پھانسی نہیں تھی پاکستان کے مستقبل کی پھانسی تھی ۔‘‘آگے چل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کےساتھ ساتھ شریف خاندان پربھی تنقید کی گئی ہے مثلاً ناول کا مرکزی کردار ایک جگہ کہتا ہے، ’’سیاست کے نقاب میں تاجروں کو پالا پوسا جانے لگا کہ وہ سیاست کو کاروبار بنانے کا فن سیکھ لیں۔اب ایسے میں فوجی حکومت کی ذہانت بس محدود سی ہوتی ہے تو انہوں نے تاجروں کو اپنے سائے تلے پروان چڑھانے کاپورا سکرپٹ تیار کیا۔
یہ پاکستان کے غریب عوام کے ہاتھوں سے ووٹ چھیننا تھا اور اس میں یہ سکرپٹ کامیاب رہا ‘‘۔ایک اور جگہ پر ناول کا مرکزی کردار لندن میں جتوئی صاحب کے فلیٹ پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ گفتگو کرتا ہے اور محترمہ اسے کہتی ہیں کہ جب سیاست اور حکومت میں پیسہ آجائے تو وہ بڑھتا جاتا ہے ۔یہ گیم رُکے گی نہیں، یہ ہر الیکشن میں پہلے سے زیادہ بڑھے گی اور ایک وقت آئے گا کہ پاکستان کی اسمبلیوں میں تاجروں کے علاوہ کوئی نہیں ہو گا لیکن ہماری پارٹی اس ضیا الحق کلچر کا راستہ روکےگی۔جب محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس آئیں تو ان کے انداز سیاست سے شاعر کو بڑی مایوسی ہوئی۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں جو وقت گزارا اس کی تفصیل بشیر ریاض کی دو کتابوں’’بھٹو خاندان…جہد مسلسل‘‘ اور ’’بے نظیر یادیں‘‘ میں موجود ہے ۔شاہی قلعے میں ہونے والے جس ٹارچر کا اس ناول میں سرسری سا ذکر ہے اس کی تفصیل آغا نوید کی کتاب ’’دوسرا جنم‘‘ اور فرخندہ بخاری کی کتاب ’’یہ بازی عشق کی بازی ہے ‘‘ میں پڑھیں تو ان سب کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے جو کہتے ہیں کہ جتنا ٹارچر آج ہورہا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اصغر ندیم سید خود بھی شاعر ہیں اور ان کے اس ناول کا نام میرزا رفیع سودا کے اس شعر سے لیا گیا؎
کہیں مہتاب نے دیکھا ہے تجھ خورشید تاباں کو
پھرے ہے ڈھونڈتا ہر شب جہاں آباد کی گلیاں
اس ناول پر تنقید کی بہت گنجائش ہے لیکن اصغر ندیم سید نے حقیقت اور افسانے کو ملا کر ایک نیا تجربہ کیا ہے جس جتوئی نے ناول میں جرنیلوں کے سامنے انکار کیا حقیقت میں جرنیلوں سے سمجھوتہ کرکے وزیراعظم بن گیا اور جس چودھری کو جرنیلوں کا پیامبر لکھا گیا وہ آج تحریک انصاف کا صدر بن چکا ہے۔ تنقید کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ ناول میں پاکستان کے مستقبل کی سیاست کا نقشہ حقیقت کے بالکل قریب ہے۔ صفحہ 288 پر کہا گیا ’’پاکستان میں آنے والی آدھی صدی تک جنرل ضیاالحق ہی کی حکومت رہے گی۔ چہرے اوپر نیچے داغدار ہوتے رہیں گے اور ان کو کون داغدار کرتا رہے گا یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پورا نظام جن کی مٹھی میں آچکا تھا وہ بھلا کیسے جمہوری حکومتوں کو حقیقی دودھ پر پلنے دیں گے‘‘۔
بشکریہ روزنامہ جنگ