واشنگٹن (ای پی آئی )ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بھوک مٹانے کے لیے ہر وقت کھانا کھانے کے بجائے مقررہ وقت پر غذا کھانی جائے تو اس کے جسمانی صحت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں اور ایسا کرنے سے کئی بیماریوں میں کمی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔طبی جریدے سیل موٹابولزم میں شائع تحقیق کے مطابق امریکی ماہرین کی جانب سے مختصر افراد پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہر وقت کھانا کھانے سے جسم کے سیلز کی مرمت کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں مل پاتا، جس سے کئی بیماریاں ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔تحقیق کے لیے ماہرین نے 137 فائر فائٹر مرد و خواتین رضاکاروں پر تین ماہ تحقیق کی، رضاکاروں کی عمریں 23 سے 59 برس تھیں اور ان میں سے زیادہ افراد پہلے سے ہی ذیابیطس، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا شکار تھے۔ماہرین نے رضاکاروں کو دو مختلف گروپس میں تقسیم کرکے ایک گروپ کو 10 گھنٹے سے پہلے ہی غذائیں کھانے کی ہدایات کیں جب کہ دوسرے گروپ کو 10 گھنٹے کے وقفے کے بعد غذائیں کھانے کی ہدایات کی گئیں۔رضاکاروں کو تین ماہ تک تازہ سبزیاں اور پھل کھانے کو کہا گہا اور ان کی جانب سے یومیہ بنیادوں پر کھائی جانے والی غذاوں کو ایک ایپلی کیشن کے ذریعے نوٹ کیا گیا۔تحقیق شروع ہونے اور ختم ہونے کے بعد تمام رضاکاروں کے ٹیسٹ کیے گئے، جن سے حیران کن نتائج ملے۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ تمام افراد جو کہ ہر وقت کھانے کھاتے رہتے ہیں اور جسم کو کھانا ہضم کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں دیتے، ان میں کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسے مسائل بڑھنے کے امکانات ہوتے ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن افراد نے اوسطا 10 گھنٹے بعد غذائیں کھائیں، ان میں کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی سطح کم ہوئی۔ماہرین کے مطابق ہر وقت غذائیں کھانا بیکار ہوتا ہے، کیوں کہ جسم کو ہر وقت غذا کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جسم کو کھانے کے دوران وقفے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ پہلے سے کھائی گئی غذاوں کو جسم کے تمام حصوں یا سیلز تک پہنچایا جا سکے۔ماہرین نے تجویز دی کہ مختلف شفٹوں میں کام کرنے والے افراد یا راتوں کو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے جاگنے والے والدین بھی اپنی غذائیت کا خیال رکھیں اور کوشش کرکے ہر 10 گھنٹے کے وقفے کے بعد غذائیں کھائیں۔تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا لوگوں کی جانب سے ہر گھنٹے یا دو گھنٹے بعد کھائی جانے والی عام ہلکی پھلکی غذاوں یعنی پاپڑ، چپس، پھل، آئس کریم یا چائے وغیرہ کا بھی استعمال نقصان دہ ہوسکتا ہے نہیں؟