موسم ایک جیسا نہیں رہتا، کبھی گرمی تو کبھی سردی، کبھی بہار تو کبھی خزاں لیکن افسوس کہ ملک کے سیاسی موسم میں کبھی بھی تبدیلی نہیں آئی جمہوریت ہو یا آمریت سیاسی موسم ہمیشہ گرم ہی رہتا ہے۔ ہمارے سماج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ سچ نہیں بولتے اور سچ سننے کے بھی عادی نہیں۔ ہم اپنی غلطیوں کے بہترین وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کے لاجواب منصف ہیں۔ جب ہمارے پاس طاقت و اختیار ہوتا ہے تو سب چیزوں سے بیخبر ہو کر سب صحیح فیصلے کرتے ہیں۔ کسی کو یہ اختیار نہیں دیتے کہ وہ ہمیں ٹوکے یا روکے۔ ہاں لیکن اپنے سے بڑے طاقتور کی ہر بات پر لبیک کرنا اپنے لئے باعث فخر محسوس کرتے ہیں۔ وطن عزیز کے طاقتور لوگوں نے طاقت میں رہ کر جو غلط کام کیئے ان کا اعتراف انہوں نے طاقت ختم ہونے کے بعد کیا کاش اگر وہ غلط فیصلے انہوں نے طاقت میں رہ کر نہ کیئے ہوتے تو وہ بلا خوف فخر کے ساتھ سینہ تان کر قوم کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور انہیں سچ بولنے کیلئے اپنی طاقت و اختیارات کے ختم ہونے کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔
آزادی سے لیکر آج تک کسی بھی حکمران نے سکون سے حکومت نہیں کی نہ صرف یہ بلکہ عوام کو بھی کسی حکمران کے دور میں سکون نہ مل سکا۔ ملک ہمیشہ نازک دور سے گذرتا رہا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے ملک کا ظاہری حکمران ایک ہوتا ہے اور پس پردہ حاکمیت کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ جیس طرح ہاتھی کے دانت دکھانے کہ ایک اور کھانے کے اور ہوتے ہیں کچھ ایسی مثال ہماری حکمرانی کا بھی ہے۔ یہ سلسلہ قائداعظم محمد علی جناح سے شروع ہوکر عمران خان کی دور حکومت تک چلتا رہا ہے۔( ہو سکتا شہباز شریف کے ہوتے ہوئے پس پردہ کوئی اور حکمران ہو)۔ قائد اعظم کا ذکر اس لیے کیا کہ اس دور میں جنرل ایوب خان اپنی مرضی چلانا چاہتا تھا لیکن قائد نے اس کی ایک چلنے نہیں دی اسے بنگال ٹرانسفر کر دیا بعد میں جو قائد کے ساتھ ہوا اس کی گواہی تاریخ دے رہی ہے۔ اسی طرح اسکندر مرزا، جنرل یحییٰ خان ایوب خان ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کیسا کھیل کھیلا گیا وہ بھی ہم سب کے سامنے ہے۔ محترمہ بینظیر کی اپنی حکومت میں اس کے بھائی کو گھر کے سامنے گولیوں مار کر قتل کیا گیا اور ایک بہن وزیر اعظم ہوتے ہوے اپنے بھائی قاتلوں کو سزا نہ دلوا سکی۔ جمہور اور جمہوریت کی باتیں کرنے والوں نے ہمیشہ غیر جمہوری طرز سیاست کو اپنایا ہوا ہے۔ اگر ہم سیاسی پارٹیوں کی تنظیم سازی کو دیکھیں تو ہمیں ان کے جمہوری ہونے کا پتا لگ جائے گا جو لوگ اپنی پارٹی میں اختلاف رائے کو بغاوت سمجھتے ہیں وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کس طرح برداشت کرینگے ؟ جس کا منہ بولتا ثبوت نیب اینٹی کرپشن، منی لانڈرنگ کے کیسز سے لگایا جا سکتا ہے۔ حتی کہ ان کیسز میں کسی کو سزا نہیں ملی۔
کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن میں کہتا ہوں سیاست کے پاس وہ دل ہے جس میں احساس کی جگہ مفاد پرستی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ کبھی سیاست کو عبادت سمجھا جاتا تھا۔ رہنما اپنی قوم کیلئے اپنی جان تک قربان کر دیتے تھے ۔ آج دیکھا جائے تو سیاست محض اقتدار حاصل کرنے کا نام ہے۔ اقتداری سیاست کیلئے نظریوں، اصولوں اور سخن وری کو روندا جاتا ہے۔ اقتدار سے پہلے اور اقتدار کے بعد کی باتوں میں دن رات کا فرق نظر آتا ہے۔ کرسی سے پہلے جس قسم کی باتیں کی جاتی ہیں وہ سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے بس جنت چند قدموں کے فاصلے پر ہے لیکن وہی لوگ کرسی پر بیٹھنے کے بعد بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے کبھی کسی کو کچھ سنہرے خواب بھی دکھائے تھے۔ انہوں نے اس مسند پانے سے پہلے کسی سے کچھ واعدے بھی کیئے تھے۔ دوسروں کے جو فیصلے عوام دشمن لگتے تھے اقتدار ملنے کے بعد اچانک سے وہی فیصلے انہیں عوام دوست کیسے لگنے لگ جاتے ہیں؟
عمران خان کی اقتدار سے بےدخلی کے بعد آہستہ آہستہ جو حقائق سامنے آنے لگے ان کو سننے اور پڑہنے کے بعد بس افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک (سیاسی) صحافی نے اپنے ایک وی لاگ میں کہا تھا کہ ” تم نے بلا بلا کر ہمیں کہا کہ یہ لوگ( خاص طور پر پی پی پی اور نواز لیگ) بڑے کرپٹ ہیں تم نے کہا تھا کہ یہ لوگ ایسے ہیں یہ لوگ ویسے ہیں۔ انہوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ملک کی تباہی میں ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
اب یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان لوگوں کو اقتدار تک لانے میں کس کا ہاتھ ہے ؟ ان کو قوم کیلئے نجات دہندہ کر کے کس نے پیش کیا؟ بھٹو پر شفقت کا ہاتھ کس نے رکھا ؟ نواز شریف کو کون لے کر آیا؟ عمران خان کو کس طرح فیضیاب کرایا گیا؟ اگر سیاستدان ناکام اور کرپٹ ہیں تو ان کے ساتھ وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جنہوں نے ان کی پشت پناہی کی۔
سابقہ چیف آف آرمی اسٹاف کے مبینہ انٹرویو اور ثاقب نثار کے جزوی صادق و امین والے بیان کے بعد سیاسی آسمان کا رنگ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کھیل تو پہلے بھی یہی کھیلا جاتا تھا لیکن کردار نامعلوم رہتے تھے ماسوا چند ایک کے کسی کو پتا نہیں لگتا تھا کہ پردے کے پیچھے کیا کیا ہوتا رہتا تھا؟ مجھے یاد ہے محترمہ بینظیر بھٹو نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا تھا جب وہ لانگ مارچ راولپنڈی کے نزدیک پہنچا تو ایک ہیلی کاپٹر آیا جس میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ مرحوم فاروق احمد لغاری کو بھی بٹھایا گیا۔ اس کے بعد میں ہم نے دیکھا کہ نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی محترمہ ایک دفعہ دوبارہ ملک کی وزیراعظم بن گئی اور مرحوم فاروق احمد لغاری صدر مملکت بن گئے۔ اس وقت تو ہیلی کاپٹر کے آنے کی خبر دوسرے دن اخبار میں چھپی تھی لیکن آج کل تو ہر لمحہ باخبر رہنے کا زمانہ ہے۔ پل پل کی خبروں سے باخبر رہنا کوئی بڑی بات نہیں۔ اس کے ساتھ اب سیاسی جماعتیں بھی اپنی طاقتور سوشل میڈیا برگیڈ کی وجہ سے بولنے کے قابل ہو گئی ہیں۔
کچھ وقت پہلے سابق چیف آف آرمی اسٹاف کے ذرائع خبریں دیتے رہے جن میں جمہوریت کے دعویداروں کے کچے چٹھے ظاہر ہوتے رہے اب تو صاحب بہادر کے مبینہ انٹرویو کی بات ہو رہی ہے۔ برحال جو بھی ہو رہا اس میں جمہور و جمہوریت کی بہت بڑی بے توقیری ہو رہی ہے۔ جب تک سیاسی آسمان پر جمہوریت کی روشنی نہیں چمکے گی تب تک مفاد پرستی کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔
Hakimnasirani@gmail.com