اشرف شریف
سیاست کی نبضیں تیز ہو گئی ہیں۔ کھلاڑی ایک دوسرے کو چکمہ دے رہے ہیں۔سب ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں لیکن دل میں تہیہ کر رکھا ہے کہ جونہی فیصلہ کن مرحلہ آیا وہ اپنے مفادات کا راستہ لیں گے۔ پی ٹی آئی کی اسمبلیاں برقرار رہتی ہیں یا تحلیل ہو جائیں گی۔ پرویز الہی اور عمران خان کا اتحاد کن شرائط پر اگلے انتخابات میں داخل ہو گا۔ پرویز الہی کے نئے بیانات سے مطلب کے جھنڈے نکالے جا رہے ہیں،دیکھیں بساط کس ڈھنگ سے سجتی ہے۔ ن لیگ پنجاب اسمبلی توڑنے یا پرویز الہی حکومت ختم کر کے نواز شریف کے لئے کیا آسانی پیدا کرنا چاہتی ہے۔کیا مریم اور حمزہ کا شریکا اب مریم اور سلمان شہباز نبھائیں گے؟حمزہ شہباز سیاست سے کیوں بیزار معلوم ہو رہے ہیں۔ ن لیگ نے عطا تارڑ اور عرفان قادر کو کن حالات میں ہنگامی کردار ادا کرنے کے لئے تیار کر رکھا ہے؟ شائد کالم جب تک شائع ہو زرخیز شکم سیاست نئے سوالوں کے بچے پیدا کر چکی ہو۔ یہ سارے سوال اور نکات سیاسی جماعتوں سیاسی خانوادوں اور حکمران اشرافیہ کے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے متعلق ہیں اس لئے کئی بار درست جواب تک رسائی کے باوجود میں آگے بڑھ جاتا ہوں۔راہ میں کھڑے ان سوالوں سے کچھ آگے ریاست پاکستان کے مسائل زمین پر اوندھے پڑے ہیں۔پاکستان کے مفادات سٹریچر پر ہیں اور قومی یکجہتی کی ڈوبتی نبضیں ہیں۔ مگر ان تک کون پہنچے۔نواز شریف آصف زرداری ،مولانا اور عمران خان سے جڑے معاملات راستے میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔اب یہ طے کرنا ہے کہ ہم نے راجہ بکرماجیت بن کر سیاسی بھوت بیتال کی بجھارتیں بوجھنا ہیں یا ریاست کی جان بچانی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ سیاسی بے چینی کو خوراک بنا بیٹھے ہیں۔بے شمار جسمانی ذہنی اور جنیاتی تبدیلیاں اس انتشار پسند ماحول سے ہم میں منتقل ہو رہی ہیں۔ گزشتہ چند روز میں مجھے مختلف افراد سے گفتگو کا موقع ملا۔ لکھنے والے کو کبھی کبھی کچھ سروے خود کر لینے چاہئیں ۔جو لوگ ہر وقت ٹی وی اور موبائل پر سیاسی خبریں ٹاک شوز اور لایعنی مباحث دیکھتے ہیں ان میں چند مشترکہ علامتیں دیکھی گئیں۔ حد سے زیادہ سیاست زدہ افراد میں مستقبل کا خوف بیٹھ جاتا ہے ان کے لئے ہر وقت طاری رہنے والی اداسی کا علاج ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔وہ اپنی چھوٹی الجھنوں کو بڑے مسائل بنانے کے لئے نادانستہ طور پر پرورش کرنے لگتے ہیں۔ ایسے افراد چڑچڑے اور غیر ضروری بحث مباحثے کے عادی ہو جاتے ہیں۔گرم حمام اور چائے خانوں پر سیاسی بحث سے اسی لئے منع کیا جاتا ہے کہ سیاسی مباحثے میں آدمی اکثر توازن کھو بیٹھتا ہے۔جو لوگ اپنے اپنے سیاسی گورو کے تقدس پر قربان ہو رہے ہیں ان کی گفتگو،ان کا چہرہ مہرہ اور ان کا طرز عمل ملاحظہ کریں۔ذہنی مریضوں کی ساری علامات نظر آتی ہیں۔بس یہی وجہ ہے کہ سیاست پر بات کرتے ہوئے ہمیشہ وہ اسلوب اپنایا جس سے زندگی صحت مند رہے۔ ایک رپورٹ حال ہی میں دیکھی۔بتایا گیا کہ 62فیصد نوجوان ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ان سے باہر جانے کی وجہ پوچھی گئی تو دو اہم سبب سامنے آئے۔نوجوانوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں روزگار نہیں عزت نفس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔روزگار اور عزت کی خاطر بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔ ہمارا ملک اس قدر بدقسمت ہے کہ یہاں پانی کی رواں نہریں خشک ہو گئیں۔سرسبز کھیت آبادیاں بن گئے۔چلتے کارخانے بند ہو گئے۔محل تعمیر ہوئے لیکن غریب سے جھونپڑے کی زمین چھین لی گئی۔ لیڈر امید کا ستعارہ ہوتا ہے ،لیڈر میدان میں ہو تو جیت کی امید رہتی ہے ۔یہاں دو پل میں عجب ماجرا ہو جاتا ہے ،سوکھا ہوا جنگل ہرا اور ہرا جنگل جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔لیڈر بن کے کوئی سامنے آتا نہیں۔ مجھے لگتا ہے ہم کوہ قاف میں دیووں کے دیس میں پیدا ہو گئے ہیں۔ہمارے خون کی باس ان کو بے خود کر دیتی ہے،وہ کھیلتے ہیں،ہمارے جذبات ، احساسات ،خوشیوں اور روائتوں سے کھلواڑ ہوتا ہے ۔ہم کھائے جانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں،ہمارے لیڈر ہمیں امید کی روشنی نہیں دے رہے ، ہماری جانوں کا سودا کر رہے ہیں،ہم بقا کے لئے ہاتھ پاوں مارتے ہیں ،وہ قہقہے لگاتے ہیں کہ زمین ان سے جوابدہی چاہنے والوں سے پاک ہوتی جا رہی ہے ۔ بے طرح حبیب جالب یاد آ گئے: وہی حالات ہیں فقیروں کے دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے اپنا حلقہ ہے حلقہ زنجیر اور حلقے ہیں سب امیروں کے ہر بلاول ہے دیس کا مقروض پاوں ننگے ہیں بے نظیروں کے وہی اہل وفا کی صورت حال وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے سازشیں ہیں وہی خلاف عوام مشورے ہیں وہی مشیروں کے بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی وہی دن رات ہیں اسیروں کے
(بشکریہ روزنامہ 92نیوز )