یہ کہانی 2018ء میں شروع ہوئی اور 2023ء میں انجام کو پہنچی۔ کہانی کا نام ہے ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘۔ پراجیکٹ ختم ہو گیا لیکن عمران خان ختم نہیں ہوا ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘ 2011ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے شروع کیا تھا۔
2012ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس پراجیکٹ کو ظہیر الاسلام نے آگے بڑھایا اور نواز شریف کو حکومت سے نکالنے کیلئے عمران خان کو استعمال کیا۔ عمران خان کا 2014ء میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور پھر ڈی چوک میں دھرنا آئی ایس آئی کی پلاننگ کا نتیجہ تھا لیکن یہ پلاننگ فیل ہو گئی۔ ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ کے بعد پراجیکٹ عمران خان کی فائل وقتی طور پر بند ہو گئی۔ یہ فائل جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد دوبارہ کھل گئی۔ باجوہ نے اپنے سسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد اور کچھ پرانے دوستوں کی مدد سے آرمی چیف بننے کیلئے لابنگ کی۔ نواز شریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ سفارش پر کیا اور باجوہ کو آرمی چیف بنانے کے بعد ایک سال کے اندر اندر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے۔
2018ء کے انتخابات سے قبل جنرل باجوہ نے عمران خان سے ملنا جلنا شروع کیا تو وہ ان سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ عمران خان نے ان کے روکنے کے باوجود بشریٰ بی بی سے شادی کرلی۔ یہ حکم عدولی باجوہ کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے شہباز شریف سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔ باجوہ چاہتے تھے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے سیاسی علیحدگی اختیار کر لیں لیکن شہباز شریف نے وزارت ِعظمیٰ کی خاطر اپنے بھائی کو دھوکہ دینے سے انکار کر دیا۔ شہباز شریف کے انکار نے عمران خان کی قسمت بدل دی۔ جنرل باجوہ نے بادل نخواستہ دوبارہ عمران خان سے رجوع کیا اور 2018ء میں انہیں دھونس و دھاندلی کے ذریعہ وزیراعظم بنوایا۔ 2018ء میں پراجیکٹ عمران خان کے از سر نو آغاز کا مقصد پاکستان میں بہت سی آئینی و سیاسی اصلاحات لانا تھا۔
عمران خان اس پراجیکٹ کیلئے صرف ایک پاپولر فیس تھے۔ پراجیکٹ کے مقاصد میں پاکستان کو پارلیمانی نظام سے واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا بھی شامل تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کیلئے فوج کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بعض فوجی افسران سے ذاتی تعلقات بنالئے جو باجوہ کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ 2019ء میں باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کے بعد عمران خان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ دونوں کے اختلافات نے اس وقت شدت اختیار کی، جب باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور عمران خان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کے اختلافات کا مخالفین نے فائدہ اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو حکومت سے نکال دیا۔عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اپریل 2022ء میں ہوا لیکن انہیں یقین تھا کہ پراجیکٹ عمران خان ختم نہیں ہوا اور بہت جلد وہ واپس حکومت میں آ جائیں گے۔ پراجیکٹ عمران خان کے خاتمے کا یقین انہیں 9 مئی 2023ء کو آیا جب رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے بڑے تضحیک آمیز انداز میں گرفتار کیا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا، ماضی میں بھی کئی سیاست دان عدالتوں سے گرفتار کئے گئے لیکن عمران خان کی گرفتاری پر ان کی پارٹی نے جو ردعمل دکھایا اس کی مثال پہلے موجود نہیں ہے۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی نے جرنیلوں کے گھروں پر حملے نہیں کئے۔ نواز شریف بار بار گرفتار ہوئے لیکن جی ایچ کیو پر چڑھائی نہیں ہوئی۔ عمران خان کی گرفتاری پر انکی پارٹی نے فوج کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ تحریک انصاف کا ردعمل ایک سیاسی جماعت کا ردعمل نہیں تھا بلکہ ایسے فین کلب کا ردعمل تھا جو ایک شدت پسند فرقے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ فین کلب اپنے علاوہ کسی کو درست نہیں سمجھتا۔ تحریک انصاف کے ردعمل میں بہت زیادہ شدت دراصل اس تربیت کا نتیجہ تھی جو پارٹی قیادت نے اپنے بیانات کے ذریعے کی۔ جب تک فوجی جرنیل عمران خان کے سیاسی مددگار تھے تو عمران خان ان جرنیلوں کے گن گاتے تھے، جب جرنیلوں نے منہ موڑ لیا تو عمران خان ان کے نام لیکر انہیں ڈرانے لگے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو تحریک لبیک والوں کو دھمکی آمیز انداز میں کہا کرتے تھے کہ خبردار! ریاست سے مت ٹکرانا ورنہ پاش پاش ہو جائو گے۔
آج ان کی پارٹی ریاست سے ٹکرا رہی ہے تو تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما غائب ہوگئے ہیں۔ سیاست دانوں کی گرفتاری پر ایسا ردعمل نہیں آنا چاہئے کہ گرفتاری کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ یہ سیاسی ناپختگی کی انتہا ہے تحریک انصاف والوں نے پہلے تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ سے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا اور پھر عمران خان کی گرفتاری پر جلائو گھیرائو کے ذریعے ریاستی اداروں میں اپنے بہت سے ہمدرد کھو دیئے۔ عمران خان نے ہمیشہ جیل میں نہیں رہنا۔ آصف زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل اور علی وزیر سمیت بہت سے سیاست دان جیلوں سے واپس آسکتے ہیں تو عمران خان بھی واپس آئیں گے لیکن جیل میں انہیں سوچنا چاہئے کہ انکی گرفتاری پرتحریک انصاف نے جو غم وغصہ دکھایا اس کا عمرا ن خان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ آج تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس پر پابندی لگا دینی چاہئے۔
میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے حق میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے پہلے ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے پراجیکٹ عمران خان کے ذریعے پاکستان کے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ کاش، عمران خان سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کرنے کیلئے جدوجہد کرتے لیکن افسوس کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انکی کوشش یہ تھی کہ فوج انہیں دوبارہ اقتدار میں لائے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے کچھ جرنیلوں کے نام لیکر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ان کی واحد کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے فوج سے لڑائی کا ڈرامہ کیا۔ امید ہے کہ جیل سے واپس آکر وہ تحریک انصاف کو فین کلب سے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنانے پر توجہ دیں گے۔ سیاست دانوں کو فوج کی مدد سے اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہئے اور فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہی نقصان ہوتا ہے جو پراجیکٹ عمران خان نے پاکستان کو پہنچایا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ