بہت پہلے میں نے آپ کو بتادیا تھا کہ ایک فاسٹ بالر کو وکٹ کیپر سے بہتر کوئی اور جان نہیں سکتا، سمجھ نہیں سکتا۔ اسکے کوچ،اسکے کپتان،اس کے سلیکٹر، حتی کہ اس کے دوست احباب، دشمن اور اس سے بیر رکھنے والے بھی اس کو پہچان نہیں سکتے۔اپنے کنبے کے لئے وہ زندگی بھر اجنبی رہتا ہے۔
کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کے بارے میں آپ صرف قیاس آرائیاں کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور اگر قدرت نے فاسٹ بالر کو کیرزما، مقناطیسی کشش سے نوازا ہو، تو پھر وہ فاسٹ بالر آپ کے لئے دیو مالائی شخص بن جاتا ہے۔ آپ اس کی ہوشربا زندگی، کارنامے، رومانوی قصے کہانیاں سن کر دنگ رہ جاتے ہیں۔
آپ پوری ایمانداری سے یقین کرنے لگتے ہیں کہ آپ کا مقناطیسی فاسٹ بالر کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ اس کے قول اور فعل میں فرق نہیں ہوتا۔ میں نے خود کو صر ف کرکٹ تک محدود رکھا ہے۔ ورنہ فٹبالر میرا ڈونا میں بے انتہا مقناطیسی کشش تھی۔ اس کی وجہ سے گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کے اوقات بدل جاتے تھے۔ ٹریفک جیم ہو جاتے تھے۔ باکسر محمد علی کلے کو دیکھنے کے لئے لوگ دیوانہ وار اس کے تعاقب میں بھاگتے رہتے تھے۔ ارجنٹینا کے میسی کے لئے تقاریب، محفلیں، میٹنگیں ملتوی کردی جاتی ہیں۔ مگر ہم کرکٹ کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔
ہم اپنے فاسٹ بالر عمران خان کی بات کررہے ہیں۔ عمران خان کے ہم عصر فاسٹ بالر سرائین بوتھم، کپل دیو اور رچرڈہیڈلی زبردست کھلاڑی تھے، مگر ان کے پاس عمران خان والی کرشماتی کشش نہیں تھی۔ کرکٹ کی حالیہ تاریخ میں سب سے بڑے کھلاڑی سچن ٹنڈولکر میں سب کچھ تھا، مگر اس کے پاس قدرت کی دین ،کرشماتی کشش نہیں تھی۔ ایسی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ کرشماتی کشش ہم نے اپنے کھلاڑی فضل محمود میں دیکھی تھی۔ وہ دورمیڈیا کی جادوگری سے محروم دور تھا۔ فضل محمود نے بالی وڈ اور لالی وڈ کی ہیروئنوں کی نیندیں اڑادی تھیں۔لے آنے والے عمران خان کی بے پناہ کرزماتی یا کرشماتی کشش سے متاثر ہوکر اسے کرکٹ کے میدانوں سے اٹھاکر لے آئے اور ایک سیدھے سادے شخص کو سیاست میں جھونک یا۔
فقیر کو آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک شخص کی کسی مخصوص شعبے میں حاصل کی ہوئی شہرت کو آپ کسی دوسرے شعبے میں کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟ عمران خان کو سیاست میں دھکیلنے والوں نے لمحہ بھرکے لئےیہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ عمران خان میں سیاسی جراثیم ہیں بھی ، یا کہ نہیں ہیں ۔ وہ بغیر کسی رکھ رکھائو کےکھرا اور کسی حد تک اکھڑ قسم کا آدمی تھا۔ یہ میری رائے نہیں ہے۔ یہ ایک آثار قدیمہ کے وکٹ کیپر کا تجزیہ ہے ۔
عرض کرچکا ہوں کہ فاسٹ بالر کو ایک وکٹ کیپر کے علاوہ کوئی جان نہیں سکتا۔ مانا کہ میں پانچ ہزار برس موہن جو دڑو کرکٹ ٹیم کا وکٹ کیپر رہ چکا ہوں۔ مجھے براہ راست عمران خان کے ساتھ کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ مگر ایک گھاگ وکٹ کیپر ہونے کے ناطے میں عمران خان، یعنی اپنے فاسٹ بالر کو اچھی طرح جانتا ہوں، پہچانتا ہوں۔ اگر میری بات پر آپ یقین نہیں کرتے، تو پھر آپ وسیم باری،معین خان، راشدلطیف سے پوچھ سکتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کی تیز ترین بالنگ پر وکٹ کیپنگ کی ہے۔
عمران خان جابرانہ اور تحکمانہ رویے رکھتے تھے، بلکہ رکھتے ہیں۔ سب کو منہ پرکھری کھری سنادیتے تھے۔ کسی کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کرنے یا ٹیم سے باہر کرنے کے لئے کسی کی سفارش نہیں سنتے تھے۔حتی کہ چیف سلیکٹر کی بات کو بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ عمران خان کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے والوں کو سومرتبہ سوچنا چاہئے تھا کہ عمران خان جیسے رویے رکھنے والا کوئی شخص سیاستدان نہیں بن سکتا۔ سر ووین رچرڈز اور سنیل گواسکر جیسے بیٹس مین کو کلین بولڈ کرنے کے بعد عمران خان دیگر بالروں کی طرح بانہیں بھیلا کر ہوائی جہاز نہیں بنتا تھا۔
بیٹس مین کو اشاروں سے پویلین کا راستہ نہیں دکھاتا تھا۔ بڑے سے بڑے کھلاڑی کو آئوٹ کرنے کے بعد اپنی ٹیم کے پلیئروں سے جھپیاں نہیں ڈالتا تھا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان اگر سر ڈان بریڈ مین کے دور میں پیدا ہوتا اور سر ڈان بریڈمن کو آئوٹ کرتا تب بھی دنیا بھر کے بالروں کی طرح عمران خان اچھلتا، کودتا اور بھنگڑے نہیں ڈالتا۔ایسے شخص سے آپ نے امیدیں باندھی تھیں کہ وہ اکیلا شخص محض اپنی کرزماتی یا کرشماتی صلاحیتوں سے ملک میں ڈانواں ڈول سیاسی کشتی کو پار لگائے گا۔ ہمارے ملک کی سیاست کثیر الاطراف یعنی کئی سمتوں والی سیاست ہے۔
پوری سیاست علاقائیت، صوبائیت ،مذہبی فرقوں،لسانی گروہوں، انتہا پسندوں اور طبقاتی اونچ نیچ میں بٹی ہوئی ہے۔ ان گنت سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لئے آپ نے کرکٹ کے سپر اسٹار کا انتخاب کیا۔ واہ! کیا سوچ تھی آپ کی۔ سبحان اللہ۔ چلتے چلتے فقیروں کواتنا تو بتادیں کہ آپ کی نظرِ عنایت اٹھارہ برس اسکواش کے ورلڈ چیمپئن جہانگیر خان پرکیوں نہیں پڑی؟ اسکوائش کا کھیل ایک سو سے زیادہ ممالک میں کھیلا جاتا ہے۔
کرکٹ بارہ ممالک میں کھیلا جانے والا کھیل ہے۔عمران خان میں کچھ غیر معمولی خداداد صلاحیتیں ہیں۔ وہ ملک کے لئے اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیاں، کالج اور اسکول اور ووکیشنل انسٹیٹیوٹ بناسکتا تھا۔ اعلیٰ معیار کے اسپتال بناسکتا تھا۔ طبقاتی فاصلے کم کرسکتا تھا۔
نوجوانوں کو مثالی نوجوان بناسکتا تھا۔ کھیلوں کو عالمی سطح تک بلند کرسکتا تھا۔ ایسے شخص کو سیاسی بھنور میں پھنسا کر آپ نے ملک کا بہت بڑا نقصان کردیا ہے۔ عمران جیسے کھلاڑ ی بار بار جنم نہیں لیتے ۔آپ نے بنے بنائے سپر اسٹار کو تباہ کردیا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ