آپ یہ تو جانتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔

کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اقبالؒ نے ہی ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کا خواب بھی دیکھا بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کے آغاز کا اعلان بھی اپنی زبان سے کیا؟ آپ یہ تو جانتے ہیں کہ قائد اعظمؒ نے 1947ء میں پاکستان بنایا لیکن کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ قائد اعظمؒ نے 1944ء میں راولپنڈی کے قریب ایک سرسبز پہاڑی علاقے کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ صرف اس لئے کیا تھا کہ یہ شہر کشمیر کے بہت قریب ہوگا؟ آج میں کچھ ایسی لاپتہ سچائیاں آپ کے سامنے پیش کروں گا جو آپ کو پاکستان اور کشمیریوں کے رشتے کی گہرائی بھی بتائیں گی اور حکمران طبقے کی بے اعتنائی بھی بتائیں گی جس نے ان رشتوں کی گہرائی کو نئی نسل سے چھپا رکھا ہے۔آپ ہر سال پاکستان کے یوم آزادی اور یوم دفاع پر بہت سے ترانے اور ملی نغمے سنتے ہیں۔ ایک ترانہ تو پاکستان ایئر فورس کی پہچان بن چکا ہے۔ بچے بچے کو اس ترانے کے یہ مصرعے یاد ہیں:

تم ہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

یہ دراصل مولانا عبدالمجید سالک کی ایک نظم ہے جو انہوں نے 13جولائی 1931ء کو سری نگر میں شہید ہونے والے کشمیریوں کیلئے لکھی اور اپنے اخبار روزنامہ انقلاب لاہور میں شائع کی۔ 13جولائی آج بھی یوم شہدائے کشمیر کےطور پر منایا جاتا ہے اسی 13جولائی کے بطن سے 14اگست نے جنم لیا۔ یوم شہدائے کشمیر اور پاکستان کے یوم آزادی میںا یک مضبوط تعلق ہے جو قرآن نے پیدا کیا۔ اس تعلق کی کہانی جموں سے شروع ہوتی ہے اور سرینگر تک پہنچتی ہے۔

29اپریل 1931ء کو جموں کے مسلمان نمازِعید کے لئے اکٹھے ہوئے تھے اور مفتی محمد اسحاق نے عید کے خطبے میں قرآن کی ایک آیت پڑھی جس میں فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا ذکر آیا۔ مفتی صاحب نے فرعون کے ظلم وستم کا ذکر کیا تو ایک پولیس افسر بابو کھیم چند نے مفتی صاحب کو خطبہ روکنے کا حکم دیا جس پر جموں کے مسلمانوں نے احتجاج شروع کردیا۔ چند دن کے بعد جموں کی سنٹرل جیل میں ایک انسپکٹر لبھو رام نے کانسٹیبل فضل داد خان کے سامنے دوبارہ قرآن کی توہین کی جس کے بعد مسلمانوں کا احتجاج سری نگر تک پھیل گیا۔

سری نگر میں خانقاہ ِمعلی حضرت شاہ ہمدان پر احتجاج ہوا تو ایک پختون نوجوان عبدالقدیر نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف باغیانہ تقریر کردی۔ عبدالقدیر کا تعلق دیر سے تھا اور وہ ایک انگریز فوجی افسر کا خانساماں تھا۔ اسے گرفتار کرلیا گیا۔ 13جولائی 1931ء کو عبدالقدیر کے خلاف سری نگر کی سنٹرل جیل میں قانونی کارروا ئی شروع ہوئی تو کشمیری مسلمان جیل کے باہر اکٹھے ہوگئے۔ پولیس نے گرفتاریاں شروع کردیں تو مظاہرین نے جیل کی دیوار پر چڑھ کر اذان دینا شروع کردی۔ پولیس نے اذان دینے والوں پر فائرنگ شروع کردی۔ 22کشمیری مسلمان شہید ہوگئے۔ یہ وہ شہداء تھے جن کے لئے مولانا عبدالمجید سالک نے نظم لکھی۔ 9اگست 1931ء کو لاہور میں علامہ اقبالؒ کی صدارت میں کشمیر کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ 14 اگست کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جائے گا۔ 14 اگست 1931ء کو بعد از نماز جمعہ باغ بیرون موچی گیٹ لاہور میں عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں علامہ اقبالؒ نے کشمیر کی آزادی کے لئے باقاعدہ جدوجہد کا اعلان کیا۔

آپ نے یہ توسنا ہوگا کہ لفظ پاکستان کے خالق چودھری رحمت علی ہیں اور اس لفظ میں پ کا مطلب پنجاب، الف کا مطلب افغانیہ، ک کا مطلب کشمیر، س کا مطلب سندھ اور تان کا مطلب بلوچستان ہے۔ چودھری رحمت علی اس لفظ کو 1933ء میں سامنے لائے لیکن 1928ء میں اک کشمیری صحافی سید غلام حسن شاہ کاظمی نے ہفت روزہ پاکستان کے ڈیکلریشن کے لئے ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کو درخواست دی۔

کاظمی صاحب کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے علاقے ہندواڑہ سے تھا۔ وہ مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار میں کام کر چکے تھے اور قید کاٹ چکے تھے اس لئے انہیں ڈیکلریشن نہ ملا۔ 1935ء میں انہوں نے دوبارہ درخواست دی اور انہیں ڈیکلریشن مل گیا۔ مئی 1936ء میں انہوں نے ہفتہ روزہ پاکستان کا اجرا کیا اور پاکستان کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ 1937ء میں صوبہ سرحد میں کانگریس کی حکومت نے ہفتہ روزہ پاکستان پر پابندی لگا دی۔ کاظمی صاحب سرینگر چلے گئے اور ہفتہ روزہ حقیقت میں پاکستان کا پرچار کرنے لگے۔ ان کا انتقال 1985ء میں ہوا۔ وہ مظفر آباد کے علاقے ٹھنگر شریف میں دفن ہیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کو کشمیر سے بہت محبت تھی۔ 1944ء میں وہ سچیت گڑھ سے جموں اور وہاں سے سرینگر پہنچے۔ اس دورے میں ان کی ملاقات نوجوان کشمیری صحافی کے ایچ خورشید سے ہوئی جو ان کے سیکرٹری بن گئے۔ قائد اعظمؒ مظفر آباد کے راستے سے واپس آئے۔ جب وہ راولپنڈی کے قریب بارہ کہو کے علاقے میں پہنچے تو اپنے دائیں طرف سرسبز پہاڑوں کو دیکھ کر مل پور کے مقام پر گاڑی رکوائی۔ کشمیری رہنما چودھری غلام عباس ان کے ساتھ تھے اور قائد اعظمؒ نے انہیں بتایا کہ یہ سبزہ زار پاکستان کا دارالحکومت بنے گا جو کشمیر کے بہت قریب ہے۔

پاکستان اور کشمیر کے اسی تعلق کی وجہ سے مسلم کانفرنس نے قیام پاکستان کے نو دن بعد 23 اگست کو پاکستان کے حق میں فیصلہ کیا۔ 14 اگست 1947ء کے نو دن بعد 23 اگست کو سردار عبدالقیوم خان نے نیلہ بٹ سے آزادی کا اعلان کیا اور مجاہد اول کہلائے۔پاکستان کے ایک عظیم شاعر احمد فراز نے تو خود 1948ء میں کشمیر کی لڑائی میں حصہ لیا۔ احمد فراز کے علاوہ فیض احمد فیض، حبیب جالب اور کئی بڑے شاعروں نے تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کی۔ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کشمیری مجاہدوں کے بہت بڑے پرستار تھے۔

حفیظ جالندھری کا یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے پاکستا ن کے قومی ترانے سے پہلے آزاد کشمیر کا قومی ترانہ لکھا۔ پاکستان اور کشمیر کے تعلق کو ہزاروں شہداء نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ پاکستانی فوج کے پہلے نشان حیدر کیپٹن محمد سرور شہید نے بھارت کے زیر قبضہ علاقے اوڑی کی ایک پہاڑی تل پترا پر اپنی جان دی اور وہیں دفن ہیں۔ ایک اور نشان حیدر کیپٹن کرنل شیر خان 1999ء میں کارگل میں شہید ہوئے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس بہادر کیپٹن کا نام کشمیر کے ایک بہادر سپوت کرنل شیر خان کے نام پر رکھا گیا تھا جنہوں نے کشمیری تحریک آزادی میں حصہ لیا ۔

کیپٹن کرنل شیر خان صوابی میں پیدا ہوئے، کرنل شیر خان پلندری میں پیدا ہوئے، دو مختلف انسانوں کا ایک نام دراصل کشمیر اور پاکستان کا تعلق ہے۔ بھارت کے ہاتھوں پھانسی پانے والے شہیدِ کشمیر مقبول بٹ کے خطوط پر مشتمل کتاب ’’شعورِ فردا‘‘ میں ان کی بھانجی عذرا میر کے نام لکھا گیا ایک خط بہت اہم ہے۔ مقبول بٹ شہید نے لکھا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ کشمیر کی آزادی پر صرف زبانی جمع خرچ کرتا ہے البتہ پاکستان کے عوام ہمارے اصلی دوست اور حامی ہیں اور ان کی مدد کشمیری عوام کو ضرور حاصل ہوگی۔

انہوں نے لکھا کہ جب کشمیری آگے بڑھیں گے تو پاکستان کے عوام ان کے ساتھ ہوں گے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 257 پاکستان اور کشمیر کے آئینی تعلق کا ثبوت ہے۔ دفعہ 257 مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کرنے پر زور دیتی اور یہ بھی کہتی ہے کہ ان قراردادوں پر عمل درآمد کے بعد کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی سے کریں گے۔ پاکستان کا خواب ایک کشمیر النسل شاعر علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور کشمیر کی آزادی کا خواب بھی اسی علامہ اقبالؒ نے دیکھا۔ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوتا پاکستان کی آزادی مکمل نہیں ہوسکتی۔ ایک خواب کی تعبیر سامنے آچکی ہے، دوسرا خواب بھی ضرور حقیقت بنے گا۔ بقول احمد فراز؎

میرے غنیم نہ بھول تو ،کہ ستم کی شب کو زوال ہے
تیرا جبرو ستم بلا سہی، میرا حوصلہ بھی کمال ہے

بشکریہ روزنامہ جنگ