جاوید ہاشمی جیسے پیرمغاں اب کوچہ سیاست میں کہاں ،اب تو یہ میکدہ ایسے ناہنجار مے کشوں کے تصرف میں ہے جو آدابِ مے کشی سے ناواقف ہیں، نونہالانِ انقلاب جو دراصل فریب خوردہ شاہیں ہیں ،انہیں سمجھانے کوبادل نخواستہ اقبال کے الفاظ مستعار لوں تو ’زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن ‘ ہیں ۔یایوں کہئے کہ عصر حاضر کے سیاست گروں کو فلک کج رفتار نے خواجگی تو بخش دی مگر آداب بندہ پروری نہیں سکھائے ۔
میں تو جاوید ہاشمی جیسے دیدہ وروں کا قدردان ہوں ۔جب پرویز مشرف کےاقتدار کا سورج سوا نیزے پر تھا اور جنم جنم کے باغی کو ایک خط، جس پر لکھا تھا ’’قومی قیادت کے نام ‘‘، لہرانے کی پاداش میں بغاوت کا مقدمہ بناکر ٹرائل کیا گیا ،میں نے تب بھی ایک قومی روزنامے میں کالم لکھا جس کا عنوان تھا’’عصر حاضر کا سقراط‘‘۔جب جاوید ہاشمی کو نہایت تزک و احتشام اور جاہ و جلال کے ساتھ تحریک انصاف میں لایا گیا تو ’’باغی ‘‘کے طور پر متعارف کروایا گیا لیکن جب اس نے جمہوریت کے خلاف سازش کا حصہ بننے سے انکار کردیا اور کاروانِ تبدیلی کو خداحافظ کہا تو طفلان انقلاب نے اس ’’باغی‘‘پر ’’داغی‘‘کی پھبتی کسی۔
کئی برس گزر جانے کے بعد اب اس ’’داغی‘‘کو ایک بار پھر ’’باغی‘‘کا درجہ دے دیا گیا ہے اور تحریک انصاف کے وابستگان کے ہاں پذیرائی مل رہی ہے۔کیوں؟اس لئے کہ جاوید ہاشمی نے اپنی افتاد طبع کے پیش نظر سیاسی جبر کا شکار تحریک انصاف کے کارکنوں کیلئےآواز اُٹھائی ہے۔ان کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ جب مشکل وقت آتا ہے تو لوگ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔
مثال کے طور پر بھٹو کو پھانسی ہوئی تو پیپلز پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کے 40ارکان میں سے 38نے راہیں جدا کرلیں۔12اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے عنان اقتدار پر قبضہ کیا تو نوازشریف اکیلے رہ گئے ۔جاوید ہاشمی نے دعویٰ کیا ہے کہ شاہد خاقان عباسی رہا ہوئے تو مسلم لیگ کے کارکنوں نے ان کا ایئر پورٹ پر استقبال کیا ،گھر تک چھوڑ کر آئے مگر انہوں نے کہا ،آپ میرے لیے نہ آیا کریں ،میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ،میں اب کاروبار کروں گا۔پرویز رشید ملک چھوڑ کر چلے گئے ۔خواجہ آصف آئے اور کہا ’’ہاشمی صاحب ! میں تے سیاست چھڈ دتی۔‘‘اور پھر انہوں نے دبئی میںنوکری کرلی ۔احسن اقبال کو مدینہ میں ڈپٹی میئر کی ملازمت مل گئی ۔
جاوید ہاشمی کی یہ بات اس حد تک درست ہے کہ دیگر رہنمائوں کی نسبت انہوں نے زیادہ قربانیاں دیں اوراستقامت کا مظاہرہ کیا ۔جب میاں نوازشریف جلاوطن تھے تو دو افراد نے پارٹی کو زندہ رکھا اور مزاحمت کا علم گرنے نہ دیا،جاوید ہاشمی اور صدیق الفاروق۔مسلم لیگ (ن)کے رہنمائوں کو جس جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا ،وہ مجموعی طور پر دیکھنے کو نہیں ملی۔مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے راجہ ظفر الحق جو پارٹی کے مرکزی رہنما تھے ،انہوں نے پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے کے چند روز بعد اکتوبر 1999ء میں پریس کانفرنس کی ۔
صحافیوں نے الفاظ بدل بدل کر کئی بار ان سے پوچھنے کی کوشش کی کہ کیا آپ اس مارشل لا کی مذمت کرتے ہیں مگر انہوں نے محض یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ جو ہوا وہ بہت افسوسناک ہے۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ 2002ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن)کو قومی اسمبلی میں صرف15نشستوں پر کامیابی ملی اور مخصوص نشستیں ملا کر ایوان میں اس کے پاس 18ارکان تھے ۔لیکن بصد احترام عرض کروں گا کہ جاوید ہاشمی کی گفتگو سے جو تاثر مل رہا ہے وہ قطعاً درست نہیں ہے ۔
شاہد خاقان عباسی جو بطور چیئرمین پی آئی اےایک کیس کے مرکزی ملزم تھے ،12اکتوبر1999ء سے فروری 2001ء تک قید رہے ،انہیں اس کیس میں سزائے موت ہو سکتی تھی ،وہ چاہتے تھے تو وعدہ معاف گواہ بن کر پہلے دن رہائی حاصل کرسکتے تھے ،لیکن انہوں نے نوازشریف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔اس کیس میں بری ہونے کے بعد بھی انہیں 16MPOکے تحت کئی ماہ تک حراست میں رکھا گیا۔بلدیاتی انتخابات کیلئے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے گئے ۔2002ء کے عام انتخابات میں انہیں کہا گیا کہ الیکشن جیتنا ہے تو شیر کے بجائے جیپ کا انتخابی نشان لے لیں مگر وہ نہیں مانے اور مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ پر الیکشن ہار گئے ۔
اب اگر آپ ان کا موازنہ ان شعبدہ بازوں سے کررہے ہیں جو ایک مہینہ بھی جیل نہیں کاٹ سکے ،تو یہ سراسر ناانصافی ہے۔اسی طرح پرویز رشید پر کیا ستم ڈھائے گئے ،اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔اب اگررہائی ملنے پر وہ بیرون ملک علاج کروانے چلے گئے تاکہ اس جدوجہد میں پھرسے شریک ہوسکیں تو ان کا تقابل طفلانِ انقلاب سے کرنا بھونڈا مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟رانا ثنااللہ کے ساتھ کیا سلوک ہوا ؟ کیا موجودہ دور میں کسی کو اس درندگی اور حیوانیت کا سامنا کرنا پڑا؟ پرویز مشرف کے دور میں تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود کیا ایسا ہوا کہ دوہفتوں میں 100سے زائد ارکان پارلیمنٹ پارٹی چھوڑ گئے ۔
میجر جنرل احتشام ضمیر کو ارکان پارلیمنٹ کا ’’ضمیر‘‘جگانے اور مسلم لیگ (ق)بنانے میں کتنی تگ ودو کرنا پڑی اور اس سیاسی بندوبست میں کتنا وقت لگا ،آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔طفلان انقلاب پہلے ہی اس مبالغے اور مغالطے کا شکار ہیں کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہورہاہے،ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
آپ کی گفتگو سے ان کی اس غلط فہمی کو مزیدتقویت ملے گی۔ماضی میں سیاستدانوں کو کس طرح مشق ستم بنایا گیا،اس موضوع پر پہلے ہی دو کالم لکھ چکا ہوں ۔اب بھی جو سیاسی کارکن، خواہ ان کی سوچ اور نظریات غلط ہی کیوں نہ ہو،استقامت کا مظاہرہ کررہے ہیں تو ان کا حوصلہ ضرور بڑھائیں لیکن آداب مے کشی سے نابلد اورنئے نویلے مے خواروں کو ان بادہ کشوں سے نہ ملائیں جومیکدے کی آبرو اور شان ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ