وہ ایک شخص کسی کو اچھا لگے یا برا لیکن وہ پاکستان کی آئندہ سیاست و معیشت کا فوکس بنتا جا رہا ہے۔

اس شخص کا نام ہے شہباز شریف۔ 29جون کو عیدالاضحی کے دن وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف ایک ساتھ پارا چنار میں فوجی جوانوںکے ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے نظر آئے۔ عید کے دن شہباز شریف کو فوجی جوانوں کے جھرمٹ میں نعرے لگاتے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ پاکستان کی سیاسی حکومت اور فوجی قیادت کا مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔

اگلے روز 30 جون کو آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ تین ارب ڈالر کے معاہدے کا اعلان کردیا۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو شہباز شریف کی سیاسی بقا خطرے میں پڑ جاتی اور مخالفین انہیں پاکستان کی معاشی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔

اس معاہدے سے عوام کی معاشی مشکلات میں فوری کمی کا امکان نظر نہیں آتا لیکن معیشت کی بحالی کا ایک موقع پیداہوگیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا کریڈٹ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سمیت اپنی پوری ٹیم کو دیا ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران پاکستان میں جو ہوا اور پاکستان کے ساتھ جو ہوا اس نے عالمی سیاست میں بھی پاکستان کا کردار متعین کردیا ہے۔

اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹایا گیا تو شہباز شریف کو ایک امپورٹڈ حکومت کا وزیر اعظم قرار دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے امریکی سازش کا ایسا واویلا مچایا کہ عوام کی بڑی اکثریت کو واقعی سابق وزیر اعظم مظلوم لگنے لگے کیونکہ نئی حکومت نے آتے ہی آئی ایم ایف کے دبائو پرپٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اتنااضافہ کردیا کہ پاکستانیوں کی چیخیں نکل گئیں۔

شہباز شریف کو آئی ایم ایف کی وہ شرائط پوری کرنا پڑیں جو عمران خان کی حکومت نےطے کی تھیں۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ خان صاحب ایک طرف امریکی ساز ش کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے اور دوسری طرف انہوں نے ترین صاحب کے ذریعہ پوری کوشش کی کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاملات طے نہ ہوں۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کی نئی حکومت کی مشکلات کم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آئی۔

امریکا نے پچھلےسال سیلاب سے متاثرہ افراد کو امداد مہیا کی لیکن آئی ایم ایف میں اپنااثر و رسوخ استعمال نہیں کیا جس سے پاکستان میں اس تاثر کو تقویت ملی کہ امریکا کی طرف سےپاکستان کو بلیک میل کیا جا رہا تھا۔ اس صورتحال میں ایک طرف چین پاکستان کی مدد کو آیا اور دوسری طرف پاکستان نے تیل اور بجلی کے حصول کےلئے روس اور ایران سے رجوع کرلیا۔

دلچسپ پہلو یہ تھا کہ جس حکومت کو عمران خان نے امریکی گماشتہ قرار دیا وہ حکومت چین، روس اور ایران کے قریب ہوگئی اور دوسری طرف امریکا میں زلمے خلیل زاد جیسے پاکستان مخالف عناصر عمران خان کے حق میں بیان بازی کرنے لگے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے لاہور میں ایک تفصیلی پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے مشکل وقت میں چین، سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کی مدد کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ کس طرح آئی ایم ایف کی ایک شرط پوری کرنے کے لئے آخری وقت میں اسلامی ترقیاتی بینک نےبھی پاکستان کا ساتھ دیا۔

اسلامی ترقیاتی بینک میں سب سے زیادہ شیئر سعودی عرب، الجزائر اور ایران کا ہے۔ اس بینک نے ایک ارب ڈالر کا قرضہ دے کر آئی ایم ایف کو لاجواب کردیا۔ پاکستان نےآئی ایم ایف کے ساتھ جو نیا معاہدہ کیا ہے اس پر نو ماہ میں عمل درآمد کرنا ہے جبکہ آئین کے مطابق موجودہ حکومت کی مدت اس سال اگست کے وسط میں مکمل ہو رہی ہے۔ ایک طرف آئین کے تقاضے ہیں اور دوسری طرف آئی ایم ایف کےساتھ کئے گئے وعدے ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بڑی معنی خیز مسکراہٹ کےساتھ مجھے بتایا کہ موجودہ حکومت کی مدت میں اضافے کی گنجائش آئین میں موجود ہے لیکن میں ذاتی طور پر ایسی کسی گنجائش کا قائل نہیں۔ میرے قائل ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میری دعا ہےکہ آئین بھی بچ جائے اور معیشت بھی سنبھل جائے۔ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ عالمی سطح پر ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ پچھلے ایک سال میں امریکا نےپاکستان کے مقابلے پر بھارت کو زیادہ ترجیح دے کر پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی بقا کے لئے چین اور روس کے ساتھ جا کھڑا ہو۔

چین نےسعودی عرب اور ایران میںصلح کروا کے پاکستان کی بہت سی مشکلات کو کم کردیا۔ اگر پاکستان اور ایران میں گیس پائپ لائن کا منصوبہ آپریشنل ہو جاتا ہے تو اس کے مثبت اثرات پورے خطے میں نظر آئیں گے لیکن امریکا اس منصوبے پر بہت سےتحفظات رکھتا ہے۔ نظر یہی آ رہا ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان کی طرف سے امریکا کے تحفظات کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوے کو ایران اور افغانستان تک پھیلایا جائے گا۔ سی پیک دراصل بیلٹ اینڈ روڈ کےبڑے منصوبے کاایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے میں دنیا کے 65 ممالک کی2630کمپنیاں شامل ہو چکی ہیں۔ اس منصوبےسے روس میں 300 ارب ڈالر، قطر میں 246 ارب ڈالر،ملائشیا میں 160 ارب ڈالر اور پاکستا ن میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آنی ہے۔ اس منصوبے کی تفصیلات قیوم نظامی کی نئی کتاب ’’چین کےسو سال‘‘ میں موجود ہیں۔ نظامی صاحب نے اقبال کے الفاظ میں چین کو مشرق سے ابھرتا ہوا سورج قرار دیا ہے۔ چین اور روس کے ساتھ دوستی اور اقتصادی تعاون اپنی جگہ لیکن پاکستان کو ان ممالک کے ساتھ دوستی کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سیاسی و جمہوری کلچر کابھی تحفظ کرنا ہے جس کا وعدہ آئین پاکستان میں کیاگیا ہے۔

چین نے حالیہ مشکل وقت میں پاکستان کاساتھ اس لئے دیا کہ پاکستان نے امریکا کی مخالفت کے باوجود گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کردیا۔ گوادر اور کاشغر میں ریلوے لائن بچھ جائے تو پاکستان میں بہت بڑا اقتصادی انقلاب آ سکتا ہے لیکن سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے کی کامیابی کا انحصار بلوچستان کی ترقی پر ہے۔

سب سے پہلے گوادر اور پھربلوچستان والوں کی محرومیاں دور کئے بغیر سی پیک کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ صرف شہباز شریف نہیں بلکہ شی چن پنگ کے لئے بھی ایک چیلنج ہے۔ دونوں نے مل کر پاکستا ن کو ڈیفالٹ سے بچا لیا لیکن ان دونوں کو مل کر اہل بلوچستان کے مسائل بھی حل کرنے ہیں۔ جب کوئٹہ سے گوادر تک لاپتہ بلوچوں کے اہل خانہ سڑکوں پر فریادیں کرنابند کردیں گے تو سمجھیں کہ سی پیک کامیاب ہوگیا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ،