عام انتخابات کا 2023ءمیں انعقاد ممکن نظر نہیں آتا۔راولپنڈی اور اسلام آباد کے اہم فیصلہ ساز سمجھتے ہیں کہ 2024ءالیکشن کا سال ہوگالیکن ابھی یہ طے نہیں ہوپارہا کہ موجودہ وفاقی حکومت کو مزید ایک سال کیلئے برقرار رکھا جائے یا پھر نگران حکومت کی میعاد بڑھادی جائے۔

کیونکہ آئین میں اسی قومی اسمبلی کو مزید ایک سال تک توسیع دینے کی تو گنجائش ہے مگر نگران حکومت کو 90روز سے زیادہ برقرار رکھا گیا تو اربابِ اختیار کو سنجیدہ نوعیت کی آئینی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔قیاس کیا جا رہا ہے کہ مخصوص حلقے سمجھتے ہیں کہ جب تک معیشت دوبارہ اپنے ٹریک پر واپس نہ آجائے اور آئی ایم ایف کا حالیہ نو ماہ کا پیکیج مکمل نہ ہوجائے ،تب تک کسی قسم کا کوئی تجربہ نہ کیا جائے۔حتیٰ کہ وزیراعظم کی تبدیلی کے حوالے سے بھی کوئی نیا رسک نہیں لیاجانا چاہئے ۔

اسلئے عمومی خواہش یہی ہےکہ ملک میں سیاسی استحکام ضرور آئے مگر معیشت کی بحالی تک شہباز شریف ہی وزیراعظم رہیں۔جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کی خواہش تھی کہ آئندہ انتخابات کے بعد ان کے بیٹے بلاول بھٹو یا انہیں وزیراعظم بنایا جائے۔

عمران خان کے ساتھ حالیہ پنجہ آزمائی کے بعدمقتدرہ کوئی نیا محاذ کھولنے میں دلچسپی نہیں رکھتی ،اسلئے آصف زرداری اور ان کی جماعت کیلئے پنجاب میں سازگار ماحول بنانے کی کوشش کی گئی۔آصف زرداری صاحب پنجاب میں آکر بیٹھے بھی رہے،تحریک انصاف چھوڑنے والے متعدد الیکٹبلز کو زرداری صاحب سے ملاقات کرکے پی پی پی میں شامل ہونے کیلئے کہا بھی گیا مگر پنجاب کے اکثریتی الیکٹبلز نے پی پی پی میں شامل ہونے سے معذرت کرلی۔

ان تمام ارکان اسمبلی نےارباب ِاختیار پر واضح کر دیا کہ پنجاب میں پی پی پی کے ٹکٹ پر کسی نے ہمیں ووٹ نہیں دینا بلکہ راجن پور سے تو منتخب ہونے والے ایک ہی گھر کے پانچ ارکان اسمبلی نے کہا کہ اگر ہمیں زیادہ پریشر ڈال کر پی پی پی میں شامل کروا بھی دیا گیا تو یاد رکھیں کہ ہم منفی بیس ہزار سے اپنی انتخابی مہم کا آغازکریں گے اور یوں زرداری صاحب کو پنجاب میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔

زرداری صاحب اس ساری صورتحال میں ناراض بھی ہوگئے پھر پنجاب کی ایک اہم شخصیت نے انہیں نہ صرف جاکر منایا بلکہ یہ بھی سمجھایا کہ پنجاب میں سیٹیں جیتے بغیر وزیراعظم بننا ممکن نہیں ہے اورمقتدرہ کے پاس ایسی کونسی جادو کی چھڑی ہے کہ وہ پانچ ہزار ووٹوں والی جماعت کو 85ہزار ووٹوں تک لے جائے۔

تب جا کر طے ہوا کہ آئندہ وزیراعظم بھی مسلم لیگ ن سے ہوگا ،کیونکہ بہت سارے حلقوں میں مسلم لیگ ن کو تحریک انصاف پربرتری حاصل ہے جبکہ جن حلقوں میں تحریک انصاف مسلم لیگ ن سے آگے ہے،وہاں پر بھی دس سے پندرہ ہزار کا فرق ہے تو اس مارجن کو کور کرنا کوئی مشکل نہیں ۔پی پی پی کو قائل کیا گیا کہ آپ اسی طریقے سے وفاقی حکومت میں شامل رہیںگےاور مسلم لیگ ن اپنی آئندہ پنجاب حکومت میں آپکو بھی مناسب شیئر دے گی۔

اب باقی بات صدر پاکستان پر آکر رکی ہوئی ہے۔وہ معاملہ بھی طے ہوجائے گا۔لیکن اس وقت اہم ترین مسئلہ یہی ہے کہ کیا اسی وفاقی حکومت کو برقرار رکھا جائے یا پھر یہ حکومت آخری کابینہ میٹنگ میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ کرکے رخصت ہوجائے اور نگران حکومت کی توسیع کے حوالے سے ایک قرار داد بھی اسمبلی سے پاس کروالی جائے۔

وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی اکثریت کی رائے ہے کہ یہی اسمبلی برقرار رہے اور مزید ایک سال تک کام کرتی رہے۔مولانا فضل الرحمان کی جماعت رائے رکھتی ہے کہ یہی حکومت آئی ایم ایف سے ہونے والے پیکیج کو پایہ تکمیل تک پہنچائے کہ اسحاق ڈار سارے معاشی معاملات سے بخوبی آگاہ ہیں،

اس لئے مزید کچھ عرصہ انہیں ہی وزیر خزانہ برقرار رکھا جانا چاہئے ،کیونکہ نگران حکومت میں ان کا بطور وزیرخزانہ کام کرنا بہت مشکل ہوگا اور ہر طرف سے آوازیں اٹھیں گی کہ مسلم لیگ ن کی اہم ترین شخصیت نگران کابینہ کا حصہ ہے۔اس لئے اگر معیشت کو بچانا ہے تو اسی سیٹ اپ کو کام کرنا چاہئے۔پی پی پی بھی حکومت چھوڑنے میں کوئی بہت زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔

جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد و سابق وزیراعظم نوازشریف چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اپنے آپ کو مزید کسی بوجھ میں نہ دبائے اور اب اُسے انتخابات کی طرف جانا چاہئے۔

معیشت بحالی کے علاوہ ایک اہم معاملہ پروجیکٹ عمران کو منطقی انجام تک پہنچانا بھی ہے۔جس کیلئے آئندہ چند ماہ درکار ہونگے،کیونکہ سانحہ نو مئی کے تمام منصوبہ سازوں اور کچھ اہم آئینی اداروں میں بیٹھے ہوئے سہولت کاروں کو کیفر کردارتک پہنچائے بغیر فوج سکون سے نہیں بیٹھے گی۔

اس سارے پراسس کو آٹھ سے نو ماہ لگ جائیں گے ،جبکہ اس دوران معیشت بھی وینٹی لیٹر سے واپس وارڈ میں آچکی ہوگی۔وہ وقت انتخابات کیلئے بہترین ہوگا ۔دبئی میں ہونے والی حالیہ بیٹھک میں حتمی طور پر کیا طے ہوتا ہے ،یہ جلد سب کے سامنے آجائے گا۔لیکن اگر الیکشن واقعی 2024میں کرانے ہیں تو اس حکومت کو توسیع دینا سب سے آسان آئینی حل ہے،اگر نگران حکومت بنا کر 2024میں الیکشن کرانے کا منصوبہ بنایا گیا تو توقع سے زیادہ سخت ردعمل آئے گا۔کیونکہ اس معاملے پر شاید قاضی فائز عیسیٰ، سردار طارق سمیت پوری سپریم کورٹ متحد ہو کر کھڑی ہوجائے گی۔

بشکریہ روز نامہ جنگ