حمودالرحمن کمیشن نے فوجی افسران کی عیاشی،غیراخلاقی سرگرمیوں اورطاقت کے نشے پرکیالکھاتھا؟
اسلام آباد (عابدعلی آرائیں ) پاکستان کی تاریخ میں سقوط ڈھاکہ انتہائی اہمیت کامعاملہ سمجھاجاتا ہے ، ہر سال دسمبرمیں زخم دوبارہ تازہ ہوجاتے ہیں اس موقع پر حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کا تذکرہ بھی ہوتا ہے.
سن1971 میں مشرقی پاکستان میں فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے اور ملک کے ٹوٹنے کی تحقیقات کیلئے بنائے گئے حمودالرحمن انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں سینکڑوں گواہان کے دعوں کی روشنی میں انکشاف کیاگیا تھا کہ سینئرفوجی افسران کی خواتین اورشراب کی ہوس اور زمینوں اور گھروں کی لالچ نے نہ صرف ان میں لڑنے کے جذبے کو ختم کردیا تھا بلکہ اس کے باعث انہوں نے جنگ کی کامیابی کیلئے درکارپیشہ ورانہ اہلیت کو بھی کھودیا تھا۔کمیشن کی رائے میں اعلی فوجی افسران کیخلاف گواہان کی جانب سے عائد ان الزامات میں وزن تھا۔
پس منظر
سن1971 میں مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے سرنڈر اورشکست کے ساتھ پاکستان دو لخت ہوگیاتھا۔پاکستان کی اس شکست کی وجوہات کوجاننے کیلئے 1971 میں ملک کے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کے چیف جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔ اس کمیشن نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی شکست اورسرنڈرکی وجوہات تلاش کی تھیں اور انہیں رپورٹ کی شکل میں حکومتِ وقت کے پاس جمع کرایالیکن سرکاری طور پر ابھی تک یہ رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی۔
کمیشن کی دو رپورٹس بنانے کی وجوہات
جسٹس حمودالرحمان کمیشن نے تحقیقات کے دوران 200سے زائد گواہان کے بیانات اورشہادتوں کو قلمبند کیا تھا۔حمودالرحمان کمیشن نے دومرحلوں میں تحقیقات کی تھیں۔ کمیشن نے پہلے مرحلے میں تحقیقات کے بعد جولائی1972 میں رپورٹ جمع کرائی۔ پہلے مرحلے کے دوران کمیشن کو جنگی قیدیوں تک رسائی نہیں تھی،اس لئے جب جنگی قیدیوں کو ملک واپس لایا گیا تو تحقیقات کا دوسرامرحلہ شروع ہوا،جس میں قید سے رہائی پانے والے گواہان کے بیانات اورشہادتیں ریکارڈ کی گئیں۔کمیشن نے دوسرے مرحلہ کی تحقیقات کے بعد 1974 میں رپورٹ جمع کرائی تھی۔
رپورٹ میں چشم کشا انکشافات
جسٹس حمودالرحمان کمیشن رپورٹ میں 1971 کی جنگ میں پاکستان کی شکست کی وجوہات کے اخلاقی پہلوں کو بھی زیرِغورلایا گیا تھا۔ ملک ٹوٹنے اور جنگ ہارنے کی اخلاقی وجوہات بیان کرنے کے جواز سے متعلق کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنگ ہارنے کی اخلاقی وجوہات کو بیان کرنا اس لئے ضروری تھا کیونکہ کمیشن کے سامنے پیش ہونیوالے بہت سے معزز گواہان،جن میں ذمہ دار سروس افسران بھی شامل تھے، کی جانب سے دعوے کئے گئے کہ مارشل لا فرائض کی انجام دہی میں ہونیوالی کرپشن،عورتوں اورشراب کی ہوس،زمین اورگھروں کیلئے لالچ کے باعث بہت سے سینئر فوجی افسران نے لڑنے کا جذبہ کھودیا تھا اور جنگ کی انجام دہی کیلئے اہم فیصلے کرنے کے لئے درکار پیشہ ورانہ اہلیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اخلاقی گراوٹ کا عمل کب شروع ہوا؟
کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان گواہان کی جانب سے یہ بھی کہاگیا کہ بدنامی کے حامل ان افراد سے بمشکل ہی یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ پاک فوج کو فتح دلاتے۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ کمیشن کے سامنے پیش کئے جانیوالے شواہد کے تجزئے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مسلح افواج کی سینئر رینکس میں اخلاقی گراوٹ کا عمل 1958 میں اس وقت حرکت میں آیا جب یہ افسران مارشل لا فرائض میں ملوث ہوئے اور پھر جب 1969 میں جنرل یحیی خان نے ایک اورمارشل لا نافذکیا تو مسلح افواج کی سینئررینکس میں اس طرح کے رجحانات اور رغبت نے مزید شدت اختیار کی۔
کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ گواہان کی جانب سے عائد شدہ ان الزامات میں وزن ہے کہ سینئرفوجی افسران کی ایک بڑی تعداد نا صرف وسیع پیمانے پر زمینوں اور گھروں کے حصول اوردیگرکاروباری سرگرمیوں میں ملوث تھی بلکہ ان افسران نے انتہائی غیراخلاقی اورعیاشانہ طرزِزندگی اختیار کیا تھا،جس سے انکی پیشہ روانہ صلاحیتیں اورقائدانہ خوبیاں شدید متاثر ہوئیں۔
جنرل نیازی کی مبینہ عیاشیوں اور کرپشن سے متعلق سنگین انکشافات
کمیشن رپورٹ میں 1971 کی جنگ میں ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اے کے نیازی کی مبینہ عیاشیوں اور کرپشن سے متعلق بھی سنگین انکشافات کئے گئے ہیں۔ اس حوالے سے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر جنرل نیازی پر الزام تھا کہ جب وہ جی او سی سیالکوٹ تھے تو وہ مارشل لا کیسز کو ہینڈل کرنے کے عمل میں پیسہ بنا رہے تھے۔
کمیشن کی رپورٹ میں جنرل نیازی سے متعلق مزید لکھا گیا ہے کہ جب انہیں لاہور میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا تھا توتب بھی ان پر ایسی ہی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔
جنرل نیازی کے خواتین سے تعلقات
لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی پر عائد الزامات کے حوالے سے حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ انکے گلبرگ لاہور کی خاتون سعیدہ بخاری کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ رپورٹ کے مطابق سعیدہ بخاری نامی یہ خاتون سینورِتا ہوم کے نام سے چکلہ چلارہی تھیں اور چکلہ چلانے کے ساتھ ساتھ جنرل نیازی کیلئے مبینہ طور پررشوت کی وصولی اور امور کی انجام دہی کیلئے ٹاؤٹ کا کردارادا کر رہی تھیں۔
کمیشن رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر جنرل نیازی کے ایک اور خاتون کے ساتھ بھی تعلقات تھے،جن کا تعلق سیالکوٹ سے تھا اور جس کا نامشمینی فردوس تھا۔ رپورٹ کے مطابق شمینی فردوس نامی یہ خاتون بھی لاہور کی سعیدہ بخاری والا کردارادا کر رہی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ جنرل اے اے کے نیازی پر الزام تھا کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں قیام کے دوران بری شہرت کی حامل خواتین کے ساتھ تعلقات کے باعث ناخوشگوارشہرت حاصل کر لی تھی اور وہ رات کو ایسی جگہوں پرموجود ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ انکی کمانڈ کے جونیئرافسران بھی ایسی جگہوں پر تواتر سے جاتے تھے۔
جنرل نیازی پرپان کی سمگلنگ کا الزام
رپورٹ کے مطابق جنرل نیازی پر مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان پان کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا بھی الزام تھا۔
حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کے مطابق جنرل نیازی اور انکے جونیئر افسران کے خلاف کمیشن کے سامنے یہ الزامات درج ذیل گواہان نے لگائے تھے۔
عبدالقیوم عارف،گواہ نمبر6
منورحسین،ایڈووکیٹ سیالکوٹ،گواہ نمبر13
عبدالحفیظ کاردار،گواہ نمبر25
میجر سجادالحق،گواہ نمبر164
اسکواڈرن لیڈر سی اے واحد،گواہ نمبر 57
لیفٹیننٹ کرنل حفیظ احمد،گواہ نمبر 147
جنرل نیازی کے جنسی معاملات میں ملوث ہونے کے تباہ کن شواہد
حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ کے مطابق کمیشن کی جانب سے مشرقی پاکستان میں سرنڈر کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیقات کے دوسرے مرحلے میں جنرل نیازی کے سیکس امور اور پان کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے تباہ کن شواہد ریکارڈ پر آئے۔ رپورٹ کے مطابق تحقیقات کے دوسرے مرحلے میں درج ذیل گواہان نے جنرل نیازی کے خلاف جو بیانات ریکارڈ کرائے،وہ اہمیت کے حامل ہیں:۔
لیفٹیننٹ کرنل منصورالحق،گواہ نمبر260
لیفٹیننٹ کیڈر اے اے خان،گواہ نمبر 262
بریگیڈیئر آئی آر شریف،گواہ نمبر269
محمد اشرف،سابق ایڈیشنل ڈی سی ڈھاکہ،گواہ نمبر 275
لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد خان،گواہ نمبر276
رپورٹ کے مطابق جنرل نیازی سے متعلق ان میں سے ایک گواہ نے یہ بیان دیا کہ فوجی جوان یہ کہا کرتے تھے کہ جب کمانڈرخود زانی ہے تو پھر انہیں کیسے روکا جا سکتا ہے۔ سیالکوٹ اور لاہور میں تعیناتی کے دوران بھی جنرل نیازی کی ایسی ہی شہرت تھی۔
کمیشن رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جنرل نیازی کی جانب سے ایسٹرن کمانڈ میں اپنے عہدے کاناجائز استعمال کرکے پان کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات کی باد ی النظر میں بنیاد ٹھوس شواہد پرہے۔ کمیشن کے مطابق اب یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ آیا یہ امور زیرِبحث افسر کے خلاف انکوائری کا باعث بن سکتے ہیں یا نہیں۔