اسلام آباد (عابدعلی آرائیں) اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جج جسٹس بابر ستار نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے بھائی رازق سنجرانی کو خلاف قانون گریڈ 22 کے افسر کے برابر 27 سال کیلئے اسلام آباد میں بنگلہ الاٹ کرنے پر سخت فیصلہ سنادیا

اس کیس کی سماعت 19ستمبرکو کی گئی تھی جس کا تحریری حکم نامہ 21 ستمبرکوجاری کیا گیاہے

درخواست گزارسمیرا نذیر صدیقی کی جانب سے وزارت ہاؤسنگ اینڈورکس کے خلاف دائر کئے گئے مقدمہ کے 7صفحات اور 9پیراگراف پر مشتمل تحریری حکم نامے میں عدالت عالیہ نے رازق سنجرانی کو آج21ستمبر2023کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرکے انہیں کل ذاتی حیثیت میں طلب کرلیاہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے فیصلے میں لکھا ہے کہ رازق سنجرانی کو بطور منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) سیندک میٹلز لمیٹڈ بلوچستان کیٹیگری ون رہائش الاٹ کی گئی، رازق سنجرانی وفاقی حکومت کے ملازم بھی نہیں اس کے باوجود وہ کیسے کیٹیگری ون رہائش کے مستحق ہیں؟

فیصلے کے مطابق اسٹیٹ آفس حکام بتانے سے قاصر رہے کہ رازق سنجرانی ایک 33 ، 34 عمر کا شخص گریڈ 22 کا افسر کیسے ہوسکتا ہے؟ لگتا ہے کہ رازق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کا بھائی ہونے کے بنا پر کیٹیگری ون رہائش الاٹ ہونے کی رعایت ملی۔

عدالت نے لکھا ہے کہ بادی النظر میںصورتحال سے واضح ہے کہ وزارت ہاؤسنگ کی طرف سے خلاف قانون الاٹمنٹس کی گئی ہیں۔دوران سماعت اٹارنی جنرل ، سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور سیکرٹری قانون نے دلائل کے دوران عدالت میں موقف اپنا یا کہ سرکاری رہائش گاہوں کی قانون کے مطابق الاٹمنٹ کےلئے مناسب ایکشن لینے کی ضرورت ہے ۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رازق سنجرانی کواس مقدمہ کا فریق نمبر دس بنایا گیا تھا اورہدایت کی گئی تھی کہ وہ پندرہ ستمبر کو اس عدالت میں بیان حلفی سمیت پیش ہوں مگر رازق سنجرانی اس عدالت کی طرف سے یکم ستمبر کو جاری کئے گئے حکم پر عملدرآمد میں ناکام رہے ہیں تاہم رازق سنجرانی کی جانب سے وکیل نے مزیدمہلت مانگی تھی جس پر پندرہ ستمبر کو تین روز کا وقت دیا گیا تھاتاکہ 18ستمبر تک اپنا جواب جمع کراسکیں عدالت نے یکم ستمبرکورازق سنجرانی کوایک نوٹس بھی جاری کیا تھا جس میں ان سے وضاحت طلب کی تھی کہ عدالتی حکم عدولی پر کیوں نہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن رازق سنجرانی نے اپنے جواب میں اس درخواست کے قابل سماعت ہونے اور عدالتی دائرہ کارکا اعتراض اٹھا دیا ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ رازق سنجرانی نے اس نوٹس کا جواب نہیں دیا جس میں ان سے وضاحت طلب کی گئی تھی کہ وہ بتائیں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔عدالت نے لکھا ہے کہ رازق سنجرانی نے رہائش کی الاٹمنٹ کی اینٹائٹلمنٹ قانونی ہونے کے حوالے سےبیان حلفی جمع کرانے کے حکم پر بھی عملدرآمد نہیں کیا ۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اعتراضات کی بنیاد پر عدالتی حکم عدولی نہیں کی جاسکتی لیکن اس کیس میں عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور رازق سنجرانی نے باربار عدالتی احکامات ماننے سے انکار کیاہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا جواز موجود ہے۔
عدالت نے لکھا ہے درخواست گزار نے موقف اپنایاگیاہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹس غیر قانونی طور پر پسند ناپسند اور اقرباپروری کی بنیاد پر کی جارہی ہے اور درخواست گزار کا یہ موقف درست ہے ۔ عدالت نے لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل دس کی روشنی میں رازق سنجرانی کو نوٹس جاری کیا گیا تھاتاکہ انہیں بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ دلائل کے دوران رازق سنجرانی کیٹیگری ون کی رہائش گاہ حاصل کرنے کے مجاز نہیں تھےکیونکہ وہ بلوچستان حکومت کی ایک کمپنی کے ملازم تھے اور وفاقی حکومت نے ان کورہائش دینے کے فیصلے کا دفاع نہیں کیا،

جسٹس بابر ستار نے لکھا ہے کہ ایک تاثر یہ دیا گیا کہ چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی نے ممکنہ طور پر رہائش گاہ الاٹ کرانے میں اپنے بھائی کی سپورٹ کی جس کی بنا پر ان کے33سالہ بھائی کو گریڈ 22کےافسر کی رہائش گاہ الاٹ کی گئی اگر یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے تو اس سے درخواست گزار کے اقرباپروری اور پسند ناپسند پررہائش گاہوں کی الاٹمنٹ کے موقف کو تقویت ملے گی تاہم عدالت بغیر کسی تصدیق کے اس تاثر کو قبول نہیں کرے گی کہ چیئر مین سینیٹ نے اپنے بھائی کو سپورٹ کیا۔

جسٹس بابر ستار نے فیصلے میں لکھا ہے کہ چیئرمین سینیٹ ایوان بالا کے سربراہ اور صدر کی عدم موجودگی میں صدر ہوتے ہیں، چیئرمین سینیٹ نے ذاتی مفادات کو فرائض پر اثر انداز نہ ہونے دینے کا حلف لیا ہوتا ہے اس لئے یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ
چیئرمین سینیٹ اپنے اختیارات کا استعمال کرکے وفاقی حکومت کے انتظامی حکام پر دباؤ ڈال کر بھائی کورہائش گاہ کی سہولت فراہم کریں گے۔
عدالت نے لکھا ہے کہ رازق سنجرانی کوموقع دیا گیا تھاکہ بیان حلفی جمع کراکر اپنی رہائش گاہ کی الاٹمنٹ کے حوالے سے پائے جانے والے سنگین تاثر کو زائل کرتے کہ ان کو الاٹمنٹ اقرباپروری کی بنیاد پر نہیں دی گئی۔

عدالت نے لکھاہے کہ ساری صورتحال کو مدنظر رکھتےہوئے رازق سنجرانی کو نوٹس جاری کئے گئے تھے تاہم انہوں نے یکم سمبر اور پندرہ ستمبر کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے اس حکم عدولی پر ان کو توہین عدالت آرڈیننس کی شق تین کے تحت توہین عدالت کاشوکازنوٹس جاری کیا جاتا ہے جس کے تحت ان کیخلاف توہین عدالت قانون کی شق پانچ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

عدالت نے ہدایت کی ہے کہ رازق سنجرانی 21ستمبر تک اس شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرائیں اور 22ستمبرکو ہونے والی سماعت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، عدالت نے خصوصی پیغام رساں کے ذریعے حکم کی کاپی رازق سنجرانی کوبھجوانے کی ہدایت کی ہے ۔