اسلام آباد۔ گلوبلائزیشن نے پاکستان کی معیشت، سیاست، معاشرت، قانون اور ثقافت پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔ بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی گلوبلائزیشن کے مثبت اور منفی دونوں اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستانی موسیقی کی مختلف قسمیں متنوع صوبائی لوک موسیقی اور روایتی انداز جیسے قوالی اور غزل گائیکی سے لے کر روایتی اور مغربی موسیقی کی جدید شکلوں تک یہ اثرات موجو د ہیں۔
یہ بات "الائنس ” اور انفارمیشن سروسز اکیڈمی کے زیر اہتمام ”گلوبلائزیشن اینڈ پاکستانی کلچر” کے موضوع پر ہونے والے ایک پروگرام میں کہی گئی۔ جن لوگوں نے اس تقریب میں شرکت کی ان میں زبیدہ بروانی، پناہ بلوچ، ڈاکٹر حنیف خلیل، جناب مظہر عارف، ڈاکٹر حمیرا اشفاق، پروفیسر سعید احمد، جناب عامر حیدر، ماہرین تعلیم، سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندے شامل تھے۔ وزیر ثقافت سید جمال شاہ اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ انفارمیشن سروسز اکیڈمی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر طارق خان نے تقریب کی میزبانی کی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سید جمال شاہ نے کہا کہ گلوبلائزیشن قومی زندگی کے تمام شعبوں میں جو تبدیلیاں لا رہی ہے اس ریاست اور معاشرے کے لیے سنبھالنا آسان نہیں۔ عصر حاضر میں جب عالمگیریت زور پکڑ رہی ہے ریاست کے علاوہ دیگر اداروں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور اسی طرح قومی حدود میں ان کی مداخلت بھی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان سمیت کوئی بھی ریاست خود کو ان اثرات سے دور نہیں رکھ سکتی۔
دیگر مقررین نے کہا کہ پاکستان بہت ہی متنوع ثقافت کا ملک ہے۔ ہر صوبے کی زبان، لباس، کھانے اور روایات میں بہت خوبصورتی پائی جاتی ہے۔ گلوبلائزیشن کا کلچر ہماری ثقافتی روایات کو متاثر کر رہا ہے۔ ہمیں اپنی ثقافت، اپنی موسیقی، اپنے لباس اور دوسری چیزوں کو ان کے روایتی انداز میں برقرار رکھنے کے لیے کاوشیں کرنا ہوں گی۔