اسلام آباد(شاہد اجمل ) پوسٹل بیلٹ کے ذریعے حق رائے دہی استعمال کر نا مشکل اور پیچیدہ عمل ہے کیونکہ پوسٹل بیلٹ کے استعما ل سے اہل ووٹرز ووٹ کے حق سے محروم رہ جاتے ہیں.
ووٹ دینا ہر پاکستانی کا جمہوری حق ہے اور ہر شہری کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے عوامی نمائندوں کا انتخاب کرے،ہر شہری کے لیے ووٹ ڈالنا اس لیے اہم ہے کیونکہ صحت، تعلیم، زندگی کی سہولیات، قانون اور مہنگائی سب پر حکومتی پالیسیاں اسی سے جڑی ہیں،ایسے ووٹرزجو کسی مجبوری کے تحت اپنے متعلقہ حلقوں سے دور ہوں یا کسی معذوری کی وجہ سے ووٹ ڈالنے نہ جاسکتے ہوں ان کے لیے قانون کے اندر پوسٹل بیلٹ کی سہولت دی گئی ہے لیکن پوسٹل بیلٹ کے ذریعے حق رائے دہی استعمال کر نے کا عمل اتنا مشکل اور پیچیدہ ہے کہ زیادہ تر ایسے ووٹر جو پوسٹل بیلٹ کے استعما ل کے اہل ہیں اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ہر اس شخص کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے جس کا نام انتخابی فہرست میں درج ہے،الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 26 کے مطابق ہرایک شخص انتخابی حلقے میں بطور ووٹر اس وقت اندراج کا حق دار ہوگا اگر وہ پاکستان کا شہری ہے اور اس کی عمر 18 سال سے کم نہ ہو، انتخابی فہرستوں کی تیاری، نظرثانی یا تصحیح کے لیے دعوؤں، اعتراضات اور درخواستوں کو مدعو کرنے کے لیے مقرر کردہ آخری دن تک کسی بھی وقت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ رکھتا ہو۔اس کے علاوہ کسی مجاز عدالت کی طرف سے اسے ناقص دماغ قرار نہ دیا گیا ہو اور سیکشن 27 کے تحت انتخابی علاقے کا رہائشی سمجھا جاتا ہو۔نادراکی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ کو بطور ووٹر رجسٹریشن کے مقصد کے لیے یا الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے درست سمجھا جائے گا، باوجود اس کے کہ اس کی میعاد ختم ہو جائے۔
الیکشن کمیشن کے طریقہ کار کے مطابق پوسٹل بیلٹ پیپر حاصل کر نے کے لیے ووٹر کو پیزائڈنگ افسر کے نام تحریری درخواست دینا ہو تی ہے اس درخواست کا فارم الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے،الیکشن ایکٹ کے سیکشن 93 کے تحت پانچ وجوہات کی بنیاد پرپوسٹل بیلٹ کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔پہلی وجہ جب آپ کوئی سرکاری ملازم ہوں اور آپ جس ضلع میں آپ کا ووٹ درج ہے اس سے دور تعینات ہوں۔
دوسرا آپ پوسٹل بیلٹ کا استعمال اس صورت میں بھی کر سکتے ہیں اگر آپ کسی سرکاری ملازم کے زیر کفالت خاندان کے فرد ہیں اور وہ سرکاری ملازم اپنے حلقے سے دور تعینات ہے۔اسی طرح اگر آپ الیکشن ڈیوٹی کے لیے تعینات کیے گئے ہیں، تو آپ الیکشن کمیشن کی طرف سے اعلان کردہ تاریخوں کے اندر پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں
۔وہ شہری بھی پوسٹل بیلٹ کا استعمال کر نے کے اہل ہیں جو کسی بھی جسمانی معذوری کی وجہ سے سفرنہ کر سکیں تاہم ضروری ہے کے ان افراد کے پاس جسمانی معذوری کا تصدیق شدہ شناختی کارڈ ہو۔الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 93 (ڈی) کے مطابق جیل میں نظربند یا زیرحراست شخص پوسٹل بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ووٹ ڈالنا ہر شہری کی جمہوری ذمہ داری بھی ہے۔
الیکشن کمیشن نے 22جنوری2024تک پوسٹل بیلٹ کی درخواستیں وصول کر نے کا اعلان کیا ہے،الیکشن کمیشن کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ یہ سہولت سرکاری ملازمین،مسلح افواج،ان کے اہل خانہ کو بھی دی گئی ہے درخواست دینے والوں کو اپنی پوسٹنگ کے مقام اور اپنے انتخابی حلقے کی معلومات بھی دینا ہوں گی،پوسٹل بیلٹ لینے والا ووٹر اسے ذاتی طور پر پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈالنے کے لیے استعمال نہیں کر سکے گا۔
ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں پوسٹل بیلٹ کے حصول اور انہیں بھجوانے کا ایک ہی طریقہ کار ہے اور تما م وہ افراد جو قانون کے مطابق پوسٹل بیلٹ کے استعمال کے اہل ہیں اس سے فائڈہ اٹھا سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ پوسٹل بیلٹ کا مقصد ہی یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو ووٹ کاحق مل سکے۔
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر پوسٹل بیلٹ کے حصول کے لیے درخواست دینے کا طریقہ کار اور فارم موجود ہے،انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہو نے پر الیکشن کمیشن کے کسی بھی دفتر سے یہ فارم با آسانی مل جاتا ہے،جب کسی ووٹر کی طرف سے پوسٹل بیلٹ کے لیے درخواست دینے سے پہلے سرکاری ملازم اپنے محکمے اور قیدی جیل سے اس کی تصدیق کراتا ہے جس کے بعد متعلقہ صوبائی اور قومی حلقوں کے ریٹرننگ افسران کو بھیجا جاتا ہے جبکہ معذور افراد کے پاس معذوری کا سرٹیفیکیٹ ہو نا لازمی ہے پوسٹل بیلٹ میں جس امیدوار کو ووٹ دینا ہو اس کا نام لکھنا ہوتا ہے، جاری کردہ پوسٹل بیلٹ کے ساتھ متعلقہ تمام امیدواروں کے نام بھی منسلک ہوتے ہیں۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ پوسٹل بیلٹ کے حصول کے لیے درخواست فارم کا حصول بھی ایک مسئلہ ہے اگرچہ درخواست فارم الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے لیکن ایسے علاقے جہاں انٹر نیٹ اور پرنٹ کی سہولت ہی موجود نہ ہو وہاں کس طرح درخواست فارم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پوسٹ بیلٹ کی جگہ اگر ایک دو دن پہلے سرکاری ملازمین کی ووٹنگ کی جائے تو بہتر ہوگا۔ کیونکہ پوسٹل بیلٹ الیکشن کمیشن کو نہیں پہنچتا اور یہ ایک مشکل طریقہ کار ہوتا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم پتن کے نیشنل کواڈینیٹرو سینئر تجزیہ کار غلام سرور باری کا کہنا ہے کہ پوسٹل بیلٹ کے حصول سے لے کر ووٹ ڈالنے تک کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ اور مشکل ہے جس کی وجہ سے معذور، سرکاری ملازمین اور قیدی حق رائے دہی سے محروم ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے نمائندے کے چناؤ میں کردار اد نہیں کر پاتے۔پوسٹل بیلٹ کا ڈاکخانے کے ذریعے پریزائڈنگ افسر تک پہنچانا ہو تا ہے دور دراز علاقوں میں جہاں ڈاکخانے کم ہیں یا بہت زیادہ فاصلہ پر ہیں ان علاقوں میں پوسٹل بیلٹ کے ذریعے حق رائے دہی کا استعمال انتہائی مشکل ہو جا تا ہے،پوسٹل بیلٹ کے مشکل طریقہ کار کی وجہ سے خاص طور پر معذور افراد اور قیدی اپنا ووٹ نہیں ڈال پاتے،پوسٹل بیلٹ کے حصول کے لیے انتخابات سے قبل سرکاری ملازمین کو الیکشن آفس میں درخواست دینی ہوتی ہے جس کے بعد پوسٹل بیلٹ ایشو کیا جاتا ہے اور پھر ووٹ ڈاکخانہ کے ذریعے جمع کرنا ہوتا ہے، ملک بھر میں دور دراز علاقوں میں تعینات ہزاروں سرکاری ملازمین اور الیکشن ڈیوٹی پر تعینات ملازمین کے لیے پوسٹل بیلٹ کے حصول کا عمل مکمل کر نا کوئی آسان کام نہیں ہے،
الیکشن کمیشن کی رپورٹنگ کر نے والے سینئر صحافی عامر سعید عباسی کا کہنا ہے کہ پوسٹل بیلٹ کے استعمال کے طریقہ کارپر اعتراضات ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں لیکن اسے میں بہتری ے لیے صرف اس بنیاد پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے بہت کم ووٹ ڈالے جاتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھا جا تا ہے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد اس مشکل طریقہ کار کی وجہ سے پوسٹل بیلٹ کا استعمال ہی نہیں کر پاتی اور پوسٹل بیلٹ کی الیکشن کمیشن تک پہنچنے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، کیونکہ اکثر راستے میں پوسٹل بیلٹ ضائع ہوجاتا ہے۔
غیرسرکاری تنظیم پلڈاٹ کے ریسرچر عباس نیازی کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے لیے پوسٹل بیلٹ کا استعمال سب سے پیچیدہ اور مشکل کام ہے کیونکہ انہیں سب سے پہلے پوسٹل بیلٹ کے حصول کے لیے بارہ روز قبل درخواست اپنے حلقے کے ریٹرننگ افسر کو بھجوانا ہوتی ہے جس کے لیے جیل سپرنٹنڈنٹ کا کردار اہم ہو تا ہے وہ ہر قیدی کے متعلقہ حلقے کے پریزائڈنگ افسر کو ہر قیدی کے حلقہ کی تفصیل کے ساتھ ان کے ناموں کی فہرست بھجواتا ہے ریٹرننگ افسر اپنے ووٹنگ لسٹ کی مدد سے درخواست کی تصدیق کرتا ہے، اگر قیدی کا نام اسی حلقے میں ہوگا تو ریٹرننگ افسر اسے پوسٹل بیلٹ جاری کرے گا اس طرح پوسٹل بیلٹ قیدیوں تک پہنچتا ہے جس کے بعد اپنے پسند کے امیدوار کا نام درج کر کے اسے پریذائڈنگ افسر کو ڈاک کے زریعے بھجوایا جا تا ہے۔
اگر پوسٹل بیلٹ کے حصول اور اس کے زریعے حق رائے دہی کو استعمال کر نے کے عمل کو آسان بنایا جائے تو پوسٹل بیلٹ استعمال کر نے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گا جس سے وہ افراد بھی اپنا ووٹ کا حق استعمال کر سکیں گے جن کو پو لنگ اسٹیشن پر جا کر ووٹ ڈالنے میں مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔