راولپنڈی(ای پی آئی) راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان اور انکے دور کے وزیرخارجہ کیخلاف پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کی خصوصی عدالت سائفر کیس کی سماعت کررہی ہے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت جاری رکھے ہوئے ہیں،،،اس کیس کی 27 جنوری بروزہفتے کو ہونے والی سماعت کا احوال اسلام آباد کے صحافی محمد عمران نے اپنی تحریر میں لکھا ہے..

27جنوری 2024 بروز ہفتہ صبح تقریباً نو بج کر 45 منٹ پر میں اڈیالہ جیل کے گیٹ پر موجود تھا،انٹری پوائنٹ پر موجود اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ جیل عمران ریاض نے مجھے دیکھتے ہی اشارہ کیا کہ جلدی آجائیں جج صاحب انتظار کررہے ہیں ،ابھی تک کوئی رپورٹر نہیں پہنچا۔
عمران خان کی بہنیں بھی کچھ وکلا کیساتھ وہیں دروازے پر اپنی گاڑی میں موجود تھیں۔
میں جلدی سے آگے بڑھا ،عمران ریاض نے میرے آفس کارڈ کی تصویر بنائی،رجسٹرڈ میں نام درج کیا اور ایک اہلکار کو میرے ساتھ بھیجا جو مجھے جیل کے اندر ڈیوڑی تک چھوڑ کر آیا،وہاں پھر رجسٹرڈ میں انٹری ہوئی ،تلاشی لی گئی اور وائرلیس پر اطلاع دی گئی جس کے بعد ڈیوڑی کا دروازہ کھلا ،ایک اہلکار نے ہاتھ پر سنٹرل جیل کی مہر لگائی وہاں پھر سے تلاشی ہوئی ،تیسری بار رجسٹرڈ میں انٹری ہوئی،میری گاڑی کی چابی اور گھڑی اہلکاروں نے وہیں رکھوا لی ،جیل کے مرکزی احاطے میں داخلے کیلئے اندورنی گیٹ پر پہنچا ،وہاں چوتھی بار رجسٹرڈ میں انٹری ہوئی، اندرونی دروازہ کھولا گیا اور ایک اہلکار وہاں سے جیل کے کمیونٹی ہال(جہاں عدالت بیٹھتی ہے) تک چھوڑ کر آیا، جب میں کمیونٹی ہال پہنچا تو سائفر کیس کی سماعت کرنیوالے جج ابولاحسنات محمد ذوالقرنین کمرہ عدالت سے نکل کر لان کی طرف آرہے تھے انہوں نے مصافحہ کرتے ہوئے بتایا کہ دو بار کیس کی پکار ہوچکی ہے ملزمان کے وکلا نہیں پہنچے ، ہم نے سرکار کے خرچے پر ملزمان کیلئے وکیلوں کا تقرر کردیا ہے ،پندرہ کا منٹ کا وقفہ کیا ہے اگر ملزمان کے وکلا نہیں پہنچتے تو یہ سرکاری وکلا ملزمان کی نمائندگی کریں گے۔
جج صاحب ، ایف آئی اے کے وکلا اور سرکاری وکلا صفائی کیساتھ میں بھی لان میں آگیا، ،وہاں مجھے ملک عبد الرحمن ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انہیں عمران خان کی نمائندگی کیلئے سرکاری ڈیفینس کونسل مقرر کیا گیا ہے جبکہ ایڈووکیٹ حضرت یونس شاہ محمود قریشی کی نمائندگی کریں گے۔ میں نے عمران خان کے بارے میں پوچھا کہ وہ ابھی تک نہیں آئے تو بتایا گیا کہ وہ ناشتہ کررہے ہیں اور فیملی کے افراد بھی ابھی نہیں آئے تو شاید اس لئے عمران خان ابھی تک نہیں پہنچے، وہیں لان میں ایف آئی اے پراسکیوٹر ذوالفقار نقوی سے مختلف کیسز اور قانونی نکات پر بات چیت ہوتی رہی ،اسی دوران شاہ محمود قریشی کو ایک گاڑی میں کمرہ عدالت لایا گیا ، شاہ صاحب گاڑی سے اترے تو ان کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا، چند منٹ کے وقفے سے عمران خان کو بھی لے آیا گیا ،عمران خان کیساتھ چند پولیس اہلکار بھی تھے، عمران خان نے بلیک ٹراوز کیساتھ ہلکے نیلے رنگ کا سوئٹر اور بلیک لیدر جیکٹ زیب تن کر رکھی تھی اور سر پر چترالی ٹوپی لئے ہوئے تھے۔۔۔
پھر ہم سب بھی کمرہ عدالت میں پہنچے تو اس وقت جی این این کے رپورٹر فیض بھی آگئے ،ہم دونوں رپورٹرز کو میڈیا باکس میں بیٹھا کر باہر سے تالہ لگا دیا گیا، عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اونچی آواز میں پوچھا کہ باقی میڈیا والے کہاں ہیں تو ہم نے بتایا کہ تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے، عمران خان نے کہا کہ آپ پچھلے باکس میں کیوں چلے گئے ہیں وہاں تو آواز بھی نہیں آئے گی ،میں نے کہا کہ آواز تو واقعی نہیں آرہی لیکن چونکہ جیل حکام نے یہاں بٹھایا ہے تو ہم کچھ نہیں کرسکتے آپ جج سے بات کرلیجیۓ گا تاکہ وہ ہمیں آگے بلالیں۔۔

جج صاحب آگئے ،سماعت شروع ہوئی تو عمران خان اور شاہ محمود قریشی بھی روسٹرم پر آگئے ،سرکاری وکلا صفائی اور ایف آئی اے پراسکیوشن بھی روسٹرم پر موجود تھی، عمران خان نے جج کو مخاطب کرکے کہا کہ جج صاحب آپ ہم سے یہ کیا مذاق کررہے ہیں ،میں تین ماہ سے کہہ رہا ہوں کہ جس دن کیس کی سماعت ہوتی ہے تو پہلے مجھے مشاورت کیلئے وکلا سے بات کرنے دی جائے لیکن میری ملاقات نہیں کرائی جاتی، میرے اوپر اتنے زیادہ کیسز بنا دئیے گئے ہیں کہ مجھے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کس کس کیس کی سماعت ہونا ہے، اس دوران عمران خان کی آواز کچھ اونچی ہوگئی تو جج صاحب نے بھی اونچی آواز اور سخت لہجے میں جواب دیا کہ جتنا ریلیف آپ کو دے سکتا تھا آپ کو دیا،75مختلف درخواستیں ریکارڈ کا حصہ ہے جو میں نے منظور کی ہیں ، آپ کو سائیکل فراہم کرایا ،بہنوں سے ملاقات کرائی اور بھی جو ہوسکتا تھا کیا، جج صاحب مزید سخت لہجے میں بولے کے اب آپ جائیں اپنی نشست پر بیٹھ جائیں ،آپ کے وکلا آتے نہیں ہیں آپ کو سرکاری وکیل فراہم کردئیے گئے ہیں یہ آپ کی نمائندگی کریں گے آپ جائیں اپنی نشست پر بیٹھ جائیں

عمران خان کی آواز بھی اتنی ہی اونچی ہوگئی اور وہ بولے کہ مجھے وکلا سے ملنے ہی نہیں جاتا تو مجھے کیا پتہ ، یہ ایجنسی کے مقرر کردہ سرکاری وکیل ہیں ،یہ فکس میچ ہے، مان نہ مان میں تیرا مہمان ،ان گھس بیٹھیوں (سرکاری وکلا صفائی)کو یہاں سے بھیجیں، تلخی کافی بڑھ چکی تو شاہ محمود قریشی جج سے مخاطب ہوئے کہ سائفر کیس کا ٹرائل دو بار اسلام آباد ہائیکورٹ کالعدم قرار دے چکی ہے،یہ تیسری بار ٹرائل چل رہا ہے،یہ فیئر ٹرائل نہیں ہے، ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ وکیل کون ہیں ، یہ ہمارا کیس کیسے لڑیں گے،اگر آپ نے ایسے ہی فیصلہ سنانا ہے تو سنا دیں ،ہمیں اتنا بھی حق نہیں کہ اپنی مرضی کے وکلا کے زریعے اپنا کیس پیش کرسکیں، جج صاحب نے پھر پندرہ منٹ کا وقفہ کرتے ہوئے کہا شاہ صاحب آپ کے وکلا نہیں آتے تو میں کیا کرسکتا ہوں، اگر اب بھی وکلا نہیں پہنچتے تو پھر ہم سرکاری وکلا کے زریعے کارروائی آگے بڑھائیں گے۔میڈیا کے حوالے سے بھی عمران خان نے جج سے کہا کہ میڈیا موجود نہیں ہے ،جو دو لوگ آئے ہیں انہیں وہ شیشے کے پیچھے بٹھا دیا گیا ہے وہاں آواز ہی نہیں آتی، جج صاحب نے زور دار آواز سے ہم سے پوچھا کہ آپ کو آواز آرہی ہے تو میں نے کہا کہ سر بہت مشکل سے سمجھ آرہی ہے،جج صاحب نے سکیورٹی اہلکاروں کو کہا کہ میڈیا کو اگلے باکس میں بٹھائیں اور جنرل پبلک کو پیچھے بھیج دیں۔

جج صاحب اٹھ کر چلے گئے ،شاہ محمود قریشی اور عمران خان اپنی نشستوں پر آگئے ،سرکار کے مقرر کردہ وکلا دونوں کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کا کیس پیش کریں گے ،عمران خان نے کہا کہ میں نے آپ سے بات نہیں کرنی مجھے نہیں پتہ کہ آپ کون ہیں ،ہمارے اپنے وکلا ہیں ہم ان کے زریعے کیس پیش کریں گے ہمیں آپ پر اعتبار ہی نہیں ، اسی طرح شاہ محمود قریشی کیلئے مقرر کردہ سرکاری وکیل کو بھی یہی جواب ملا ، سرکاری وکلا نے کیس فائلز عمران خان کو دیں تو انہوں نے وہ واپس میز پر رکھ دیں جبکہ شاہ محمود قریشی نے وہی فائلز اٹھا کر ایسے سامنے ہوا میں اچھال دیں ان میں سے کچھ پیپرز سامنے کھڑے سرکاری وکلا اور گواہان کے منہ پر جالگے۔ سرکاری وکیل ملک عبدالرحمن نے وہیں سے مجھے آواز لگائی،بولے عمران بھائی یہ آپ دیکھ رہے ہیں ،یہ بھی رپورٹ ہونا چاہئیے، میں پہلے سے ہی سب کچھ اپنی ڈائری میں نوٹ کرچکا تھا ۔۔

ساتھ ہی شاہ محمود قریشی وہاں سے آگے آئے اور میڈیا باکس کے سامنے کھڑے ہوکر ہم سے مخاطب ہوئے،
بولے کہ نہ اللہ کا ڈر ہے ،نہ آئین کا ،قانون کا مذاق بنایا جارہا ہے ،انصاف کا گلہ گھونٹا جارہا ہے،یہ اوپن ٹرائل کا بھی مذاق اڑایا جارہا ہے ،کالے کوٹ کی بے توقیری اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے، انصاف کا قتل کرنے والے ہمارا کیا دفاع کریں گے۔ادھر بھی سرکار ،اُدھر بھی سرکار ،یہ کیسا انصاف ہورہا ہے۔

اسی دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خاندان کے افراد کمرہ عدالت میں داخل ہوئے،عمران خان اپنی بہنوں اور اہلیہ سے ملے،شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی بہن علیمہ خان کو کہا کہ یہاں ابھی بہت بڑا ڈرامہ ہوا ہے ،آپ نے باہر جا کر میڈیا سے بات کرنی ہے، عمران خان بولے کہ انہوں نے سرکاری وکیل کھڑے کردئیے ہیں سرکاری وکیل یہاں طوطا مینا کی کہانی کیلئے بٹھا دئیے گئے ہیں اور ہمارے وکلا کو اندر ہی نہیں آنے دیا جارہا ہے،یہ کیسا اوپن ٹرائل ہے اوپن ٹرائل میں آپ کسی کو کیسے روک سکتے ہیں۔

عمران خان میڈیا باکس کی طرف آگئے ،کہنے لگے کہ انتخابات کو ایک ڈیڑھ ہفتہ باقی ہے ، یہ ان 9 دن سے ڈرے ہوئے ہیں ،ہم نے اتوار کو لوگوں کو نکلنے کی کال دی تو انہوں نے گرفتاریاں شروع کردیں،ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جارہا ہے،انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے لیکن سپریم کورٹ انسانی حقوق سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کررہے ، توشہ خانہ نااہلی کیس میں بھی میری درخواست کو سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا جارہا۔ میرے وکیل لطیف کھوسہ اپنی انتخابی مہم کیلئے لاہور میں موجود ہیں،میں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ سماعت سے پہلے مجھے وکلا سے بات کرنے کی اجازت دی جائے لیکن بات ہی نہیں کرائی جاتی۔

جج صاحب کمرہ عدالت میں واپس آئے، سماعت پھر سے شروع ہوئی، عمران خان کے جونیئر وکلا عثمان ریاض گل اور خالد یوسف چوہدری بھی کمرہ عدالت میں آگئے،شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آکر جج سے مخاطب ہوئے کہ مجھے سرکاری وکیل نہیں چاہئیے میں اپنا کیس خود آرگیو کروں گا ،یہ سرکاری ڈرامہ چل رہا ہے یہ ہمیں کیا انصاف دلائیں گے ہمیں ان پر اعتماد ہی نہیں۔

اسی دوران شاہ محمود قریشی نے کوئی اور جملہ کہا جس کے جواب میں جج صاحب بولے کہ جو آپ کہہ رہے ہیں بات وہ بھی ہے لیکن آپ بہتر جانتے ہیں

جج صاحب نے شاہ محمود قریشی کو کہا کہ میں نے یکطرفہ فیصلہ کرنا ہوتا تو گزشتہ روز میں آپ کا دفاع کا حق ختم کرسکتا تھا لیکن میں نے آپ کو سرکار کے خرچے پر وکلا دے کر نمائندگی کا حق دیا ، اللہ پر یقین رکھیں۔

عمران خان کے معاون وکیل عثمان ریاض گل عدالت سے مخاطب ہوئے،کہا کہ ایڈووکیٹ علی بخاری کی ٹیم کے ممبران جیل کے باہر موجود ہیں لیکن انہیں اندر نہیں آنے دیا جارہا۔انہیں اندر بلالیں۔ہم نے کچھ درخواستیں بھی دائر کرنی ہیں، اس عدالت کے روبرو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے چھ اور مقدمات ہیں لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ اس کیس کو کیوں اسپیشل ٹریٹ کیا جارہا ہے،حالانکہ نامزد ملزمان ضمانت پر ہیں پھر بھی روزانہ سماعت کی جارہی ہے ۔

جج صاحب بولے کہ اس کیس میں اسپیشل یہ ہے کہ ملزمان سلاخوں کے پیچھے ہیں،میں انسدادِ دہشتگردی عدالت کے کیسز چھوڑ کر روزانہ صبح نو بجے یہاں پہنچا ہوا ہوتا ہوں،وہ بھی تو کسی ماؤں کے بچے ہیں جن کے کیسز انسداد دہشتگری عدالت میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔یہاں ملزمان کے وکلا ہی پیش نہیں ہوتے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ملزمان ٹرائل میں کوئی رکاوٹ ڈالیں تو ضمانت منسوخ کی جاسکتی ہے، سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ ٹرائل کو expeditiously ہونا چاہیے، ہائیکورٹ رولز میں بھی یہی ہے کہ جیل ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی جج سے مخاطب ہوئے کہ میں bailکے باوجود Jail میں ہوں، سائفر کیس میں ضمانت کے باوجود ایسے کیس میں گرفتار کیا گیا جس میں میں نامزد ہی نہیں ہوں ،میں موقع پر بھی موجود نہیں تھا،مجھے سپریم کورٹ نے ضمانت دی ،مجھے اندر نہیں ہونا چاہئے تھا

عمران خان روسٹرم پر آئے اور جج صاحب کو کہا کہ آرام سے ،پیار سے میری بات سنیں ،مجھے میرے وکلا سے بات کرنے کی اجازت دی جائے، جیل حکام کو کہیں کہ میری وکلا سے بات کرائیں میں کیس سے متعلق ان سے مشاورت کرنا چاہتا ہوں،مجھے وکیلوں سے بات نہیں کرنے دی جاتی تو میں کیا کرسکتا ہوں ؟

معاون وکیل عثمان ریاض گل بولے کہ کیس کی اگلی تاریخ شام چھ بجے اناؤنس ہوتی ہے ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا،پراسکیوشن کے نامزد کردہ وکیلوں کے ذریعے کیس چلایا جائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ فیصلہ پہلے ہوچکا ہے ،گزشتہ روز معروف اینکر پرسن نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ سائفر کیس کا فیصلہ پانچ فروری سے پہلے آجائے گا، نجم سیٹھی کو عدالت کے فیصلے کا پہلے سے کیسے پتہ چل گیا ؟ عدالت نجم سیٹھی کو طلب کرکے پوچھ سکتی ہے۔

جج صاحب نے جواب دیا کہ اگر آپ کو شوق ہے تو نجم سیٹھی کو یہاں بلوا لیں ،بولنا ان کا حق ہے ،آپ چاہتے ہیں کہ وہ بات نہ کریں ؟
وکیل عثمان ریاض گل نے جواب دیا کہ جج صاحب یہ عدالت کا اختیار ہے آپ نجم سیٹھی کو طلب کرلیں۔جو سرکاری وکلا یہاں موجود ہیں ان کی تقرری کا نوٹیفیکیشن عدالتی فائل پر موجود ہونا چاہئیے تھا جو کہ نہیں ہے، وفاقی حکومت کا نوٹیفکیشن کدھر ہے ، وہ بھی فائل پر موجود نہیں ہے، وہ ہونا چاہئیے تھا۔یہ ایسے کیسے نمائندگی کرسکتے ہیں۔
جج صاحب نے جواب دیا کیا نوٹیفکیشنز موجود ہیں اور فائل کے ساتھ لگا دئیے جائیں گے۔
(اس وقت نوٹیفکیشنز فائل پر موجود نہیں تھے،جج صاحب نے فائل اِدھر اُدھر کی بھی سہی پھر ریڈر کو بھی کہا لیکن نوٹیفکیشن فائلز پر نہیں تھے)

عثمان ریاض گل کافی ساری متفرق درخواستیں تیار کرکے لائے ہوئے تھے ،بظاہر ان کا مقصد یہی لگ رہا تھا کہ وہ آج کا دن گزارنا چاہ رہے تھے تاکہ سماعت پیر تک چلی جائے،عثمان ریاض گل نے پانچ متفرق درخواستیں دائر کیں ،تین جج صاحب نے مسترد کردیں ،ایک پر نوٹس کیا اور ایک منظور کرلی۔ان درخواستوں میں سے ایک درخواست یہ بھی تھی کہ کیس کی تمام شہادتیں اردو زبان میں ریکارڈ کی جائیں۔

سماعت جاری تھی اس دوران عمران خان پھر میڈیا باکس کے سامنے آگئے اور بولے کہ یہ جو قاضی فائز عیسیٰ نے انٹرا پارٹی انتخابات پر کہا ہے کہ ہم نے انتخابات نہیں کروائے اور میں قصور وار ہوں تو مجھے بتائیں کہ میں تو چھ ماہ سے جیل میں ہوں میں کیسے قصور وار ہوں،ہماری پارٹی کی فرسٹ اور سیکنڈ ٹیر کی لیڈرشپ کو پارٹی چھڑوا دی گئی یا پھر جیل میں ڈال دیا گیا،ایسی صورتحال میں ایسے ہی الیکشن ہوسکتے تھے جو ہم نے کرائے، قاضی صاحب نے کہا کہ سب جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملتی چاہئیے لیکن یہاں تو لوگوں کو اپنے سب بنیادی حق جو کہ ووٹ کا حق ہے وہ استعمال نہیں کرنے دیا جارہا ، خان نے پھر یہ جملہ انگریزی میں دہرایا
Basic right, right to choose your representative
نہیں دیا جارہا ۔یہ میچ پہلے سے ہی فکس ہے ،یہاں اپنے وکیل کھڑے کردئیے ہیں۔خود ہی
Judge, jury, execution.
نواز شریف اور آصف زرداری کا توشہ خانہ open and shut کیس ہے

لیکن اس میں لمبی لمبی تاریخیں دے دی جاتی ہیں اور یہاں روزانہ سماعت کی جارہی ہے،نواز شریف اور زرداری نے توشہ خانہ سے لگثری گاڑیاں لیں جو کہ قانون کے مطابق لی ہی نہیں جاسکتیں۔صدر پاکستان سے نوٹس لینے کا کیا مطالبہ کریں ،ان کی تو کوئی سنتا ہی نہیں ۔سب کچھ جھوٹ پر چلایا جارہا ہے، جھوٹ بولا جارہا ہے۔نواز شریف کی ایک ہی امید ہے کہ ویگو ڈالہ ہی اسے الیکشن جتوا دے،عوام تو اس کے ساتھ ہے نہیں۔ویگو ڈالے نے دو نئی سیاسی جماعتیں بنوا دی ہیں ،ایک پنجاب اور ایک خیبر پختونخوا میں ۔

سماعت جاری تھی۔

عمران خان کے جونیئر وکیل عثمان ریاض گل دلائل دے رہے تھے کہ جب تک وفاقی حکومت کا نوٹیفکیشن موجود نہیں تب تک یہ سرکاری وکیل یہاں کھڑے نہیں ہوسکتے، پراسکیوشن سے زیادہ جلدی تو ان سرکار کے مقرر کردہ وکیلوں کو لگ رہی ہے،جس طرح یہ کارروائی چل رہی ہے یہ پھر کالعدم ہوجانی ہے، عدالت نے کارروائی قانون کے مطابق چلانی ہے ،عدالت پراسکیوشن کی خواہش پر غیر قانونی طریقے سے کارروائی آگے بڑھا رہی ہے،پراسکیوشن تو یہ چاہ رہی ہے کہ ابھی جیل سپرنٹینڈنٹ کو کہیں کہ وہ رسی لے آئے اور لٹکا دیں۔

جج صاحب نے عثمان گل کو روکا اور بولے کہ ایسے نہ کہیں، جب تک اللہ نہیں چاہتا تب تک کچھ نہیں ہوتا ۔گزشتہ دو سماعتوں کا آرڈر موجود ہے آپ کے وکلا نہیں آئے ، پھر سرکار کے خرچے پر وکیل مقرر کرنے کا حکم دیا گیا۔
ایف آئی اے پراسکیوٹر راجہ رضوان عباسی بولے کہ فیئر ٹرائل کا یہ مطلب نہیں کہ جو وکیل صفائی کہیں وہی فیئر ٹرائل ہے، فیئر ٹرائل کے تقاضے قانون میں موجود ہیں۔
ایک بار پھر سماعت میں وقفہ ہوا۔ عمران خان کے وکیل عثمان ریاض گل نے کہا کہ انہوں نے اپنے موکل سے کچھ مشاورت کرنی ہے اور کچھ درخواستیں بھی دینی ہیں تو کچھ دیر کا وقفہ کیا جائے۔
وقفے کے دوران عثمان ریاض گل اور چوہدری خالد یوسف فائلیں سیدھی کرتے رہے، عمران خان اپنی اہلیہ کیساتھ گپ شپ کرتے رہے اور شاہ محمود میڈیا باکس آگئے۔کہنے لگے کہ پیپلز پارٹی کیں پلوشہ خان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے لئے گئے،مسلم لیگ ن کے نہال ہاشمی نے کہا کہ سندھ میں انتخابی مہم کیلئے سرکاری مشینری کا استعمال ہورہا ہے، یہ خود ایک دوسرے پر الزامات لگارہے ہیں۔ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے بارے میں جو عمران خان نے کہا تھا وہی اب پیپلز پارٹی بھی کہہ رہی ہے ۔ملتان میں ہمارا گھر 125سال پرانا ہے ، انگریزوں اور سکھوں نے ہمارے گھر کی دہلیز پار نہیں کی تھی، رنجیت سنگھ کے زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا لیکن اب ہمارے گھر پر ریڈ کیا گیا اور آٹھ غیر سیاسی افراد کو گرفتار کرلیا گیا ،گھر سے انتخابی مواد بھی کے گئے،میں چھ ماہ سے جیل میں پڑا ہوں، ایک سیاسی جماعت کو کھلم کھلا انتخابی مہم کی اجازت ہے جبکہ ہمارے امیدواروں کو کارنر میٹنگ اور کنونشن کرنے کی اجازت نہیں۔ہمیں تو نشان بھی انہوں نے اپنی مرضی سے دئیے پھر بھی گرفتاریاں کی جارہی ہیں۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا۔ شاہ محمود قریشی کے وکیل سید علی بخاری بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے اور شدید احتجاج ریکارڈ کرایا کہ ان کی ٹیم صبح سے جیل کے باہر موجود ہے لیکن انہیں اندر نہیں آنے دیا جارہا ہے،میری ٹیم میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شامل ہیں ،ہم نے ہمیشہ عدالت کا احترام کیا ہے، ابھی گیٹ پر چیک کرکے پوچھ لیں کہ ہمارے وکلا باہر موجود ہیں یا نہیں،کسی کو اندر ہی نہیں آنے دیا جائے گا تو وہ جرح کیسے کریں گے۔
جج صاحب نے کہا کہ بخاری صاحب ہم آپ کی عزت کرتے ہیں،آپ کے وکلا باہر کھڑے ہیں تو انہیں بلا لیتے ہیں ۔صبح سے دس بار سماعت میں وقفہ ہو چکا ہے۔

عثمان ریاض گل جج سے مخاطب ہوئے کہ میں نے صبح آتے ہی عدالت کو بتایا تھا کہ وکلا باہر موجود ہیں لیکن انہیں نہیں بلایا گیا ، آپ نے سرکاری وکیل مقرر کرنے بھی تھے تو کوئی سنیئر وکلا ہی کردیتے،ساتھ کھڑے سرکاری وکیل ملک عبدالرحمن نے دبے لفظوں میں کچھ کہا تو شاہ محمود قریشی اور عمران خان اونچی آواز میں بولے کہ جو ہم سے بدتمیزی کررہا ہے وہ ہمارا کیا دفاع کرے گا؟

عثمان ریاض گل عدالت سے استدعا کی کہ کیس کے سنیئر وکلا سے بات کرنے کی سہولت فراہم کی جائے ہم بیرسٹر تیمور اور سکندر سلیم ذوالقرنین سے مشاورت کرنا چاہتے ہیں ۔عدالت نے اس بار ڈپٹی سپریٹنڈنٹ جیل آفتاب کو بلوایا اور حکم دیا کہ ملزمان کی ان کے وکلا سے بات کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔

جج صاحب کمرہ عدالت میں ہی بیٹھے رہے ،کچھ دیر بعد ڈپٹی سپریٹنڈنٹ نے آکر بتایا کہ انتظامات کئے جارہے ،دس پندرہ منٹ میں بات کرادی جائے گی۔
عثمان ریاض گل نے جج صاحب کو کہا کہ
I don’t know why the court is in hurry?
جج صاحب نے جواب دیا کہ
I am not in hurry you are delaying it.

پھر سماعت میں وقفہ ہوگیا ،شاہ محمود قریشی، عمران خان ،ایڈووکیٹ علی بخاری اور عثمان ریاض گل کمرہ عدالت میں بیٹھ کر مشاورت کرنے لگے۔جج صاحب کمیونٹی ہال کے باہر چلے گئے ،کچھ دیر بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بھی لے جایا گیا ۔
ہم راہداری میں ایڈووکیٹ علی بخاری اور نیب پراسکیوٹر امجد پرویز سے گفتگو کرتے رہے ،وہاں سے لان میں پہنچے تو جیل اہلکار نے کہا کہ میڈیا اور پبلک کے لوگ آجائیں ،
ہم نے کہا کہ سماعت تو ابھی چل رہی ہے وقفہ ہوا ہے تو ہمیں کیوں باہر بھیجا جارہا ہے ،وہیں پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر بھی آگئے میں نے ان سے مصافحہ کیا اور پوچھا کہ سر آپ کے توشہ خانہ کیس کی سماعت کب ہونی ہے ،یہ اہلکار تو ہمیں ابھی سے باہر بھیج رہے ہیں ،جج صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ کو کھانا کھلانے کے جارہے ہونگے ۔۔۔۔۔
یوں پھر ہم جیل سے باہر آگئے اور چند گھنٹوں بعد وکلا سے معلوم پڑا کہ سرکار کے مقرر کردہ وکیلوں کے ذریعے سائفر کیس کے تفتیشی افسر سمیت نو گواہوں کے بیانات پر جرح مکمل کرلی گئی ہے اور کیس کی اگلی سماعت پیر 29جنوری کو ہوگی۔
توشہ خانہ کیس میں میں تین گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے گئے اس سماعت میں بھی میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں تھی