اسلام آباد (عابدعلی آرائیں) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی ہے جس میں لاہور ہائیکورٹ نے ان کی وہ درخواست خارج کی تھی جس کے ذریعے سلمان اکرم راجہ نے خود کو آزاد امیدوار قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا اقدام چیلنج کیا تھا۔

سلمان اکرم راجہ نے 18صفحات پر مشتمل اپیل میں الیکشن کمیشن ، سیکرٹری الیکشن کمیشن، ریٹرننگ افسر این اے 128 اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسرلاہور کو فریق بنایاہے
درخواست میں کہا گیا ہے کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے ان کی درخواست پر 25جنوری کو دیئے گئے فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں اس لئے وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔۔
اپیل میں سلمان اکرم راجہ کی جانب سے 12قانونی سوالات اٹھائے ہیں جبکہ معاملے کے حوالے سے 19حقائق کو بھی اپیل کا حصہ بنایا گیاہے انہوں نے 19 وجوہات بتاتے ہوئے عدالت سے استدعا کی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کافیصلہ کالعدم قراردیا جائے۔
اپنے قانونی سوالات میں سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا ہے کہ کیا لاہور ہائیکورٹکی طرف سے ان کا معاملہ دوبارہ الیکشن کمیشن کو بھیجنا فیصلے کا نقص نہیں ہے ،میں نے اپنے درخواست میں الیکشن ایکٹ کے رولز اور الیکشن ایکٹ کی شقوں کی وائریز کو چیلنج کیا تھا اور معاملہ دوبارہ الیکشن کو بھجوا دیا گیا کیا کیاالیکشن کمیشن کے پاس اآئینی یا قانونی طورپر ڈکلیریشن دینے کااختیار موجود ہے؟

سلمان اکرم راجہ سے سوال اٹھایا ہے کہ لاہورہائیکورٹ نے آئین کے آرٹیکل125 کاسہارا لیکر آئین کے آرٹیکل 199 کا دائرہ کاراستعمال کرنے سے خود کونہیں روکا؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ عدالت نے اس بات کا ادراک بھی نہیں کیا کہ کمیشن کے پاس

درخواست گزار کے لئے کوئی ریلیف موجود نہیں ہے اور عدالت نے الیکشن کمیشن کو معاملہ حل کرنے کی ہدایت کرکے مجھے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے جب تک الیکشن کمیشن یہ معاملہ دیکھے گا اس دن تک پولنگ کا دن گزر چکا ہوگا، اور پھر ساری مشق بے سود ہوگی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ آئین کے آرٹیکل 17(2) کے تحت بنیادی حقوق کے اطلاق میں ناکام رہی ہے کیونکہ ہائیکورٹ ہی آرٹیکل 199 کے تحت رولز کی وائریزکا معاملہ دیکھ سکتی تھی۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ غلام مصطفی جتوئی کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قراردیا ہے کہ ہائیکورٹ الیکشن کمیشن حکام کے اس غلط فیصلے کیخلاف الیکشن پروگرام میں بھی مداخلت کرسکتی ہے جس سے الیکشن کمیشن کے نمائندےنے ایک امیدوارکو متاثرکیا ہو۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ اس امر کو بھی دیکھنے میں ناکام رہی ہے کہ کسی جماعت کے ایک رکن کو ایک بینر کے نیچے انتخابات لڑنے کے حق سے محروم کردیاگیا ہے حالانکہ آئین کے آرٹیکل 17 (2)میں پارٹی بنانے اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا گیا ۔اس طرح لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے آئین کی خلاف ورزی کو تحفظ دیاہے ۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں یہ بھی نقص ہے کہ اس میں اس چیز کو نہیں دیکھا گیا کہ رولز میں سیاسی جماعت کی جو تشریح دی گئی ہے وہ الیکشن ایکٹ کی شق دو میں دی گئی تشریح اورآئین کے آرٹیکل 17 (2) میں دی گئی تشریح کے منافی ہے۔اس لئے یہ رولز کالعدم قراردیئے جانے کےلائق ہے۔

درخواست میں سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہوئے نمٹا دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ اس معاملہ کو 2 روز میں ٹیک اپ کیا جائے اورفریقین کا موقف سن کر دس روز میں فیصلہ کیا جائے ۔ لاہور ہائیکورٹ نے یہ فیصلہ 25جنوری کو محفوظ کیا اور 29 جنوری کو سنایا گیا ۔ اگر الیکشن کمیشن یہ معاملہ دو دن میں اٹھا بھی لے اور دس دن میں فیصلہ بھی کرے تو پولنگ کی تاریخ 8 فروری گزر چکی ہوگی جس سے سلمان اکرم راجہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس لئے لاہورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قردیا جائے،

درخواست میںعمران خان اور پی ٹی آئی کیخلاف جاری چار اہم کارروائیوں کو ذکر کرتے ہوئے موقف اپنایا گیاہے کہ یہ بات عیاں ہے کہ الیکشن کمیشن بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کی کارروارئی کررہا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلوں کےذریعے پارٹی کا انتخابی نشان واپس لیا ہے
جب پی ٹی آئی نےدوسری جماعت پی ٹی آئی این سے الحاق کیا تو الیکشن کمیشن نے تمام ریٹرننگ افسران کو ہدایت جاری کی کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ٹکٹس اس جماعت کے پلیٹ فارم سے وصول نہ کریں۔
الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے امیدواروں کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کی کاروائیوں کیخلاف کوئی بھی ایکشن لینے میں ناکام رہا ہے اس صورتحال میں الیکشن کمیشن کو یہ معاملہ بھیجناناقابل فہم ے کیونکہ پہلے ہی الیکشن کمیشن نے امیدواروں کوپی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے اور انہیں آزاد امیدوار قراردیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس یہ معاملہ دیکھنے کا اختیار موجود تھا لیکن ایسا نہیں کیاگیاہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کو بھی نظراندازکیاہے۔ یہ معاملہ بنیادی حقوق کا ہے کیونکہ مجھے آزاد امیدوار ڈکلیئرکیا گیا ہے حالانکہ مجھ سمیت تمام امیدواروں نے پی ٹی آئی کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور الیکشن کمیشن کے پاس ہماری جماعت ابھی تک رجسٹرڈ جماعت کے طور پرموجود ہے اور وہی ہماری جماعت ہے اس لئے ایس کوئی وجہ باقی نہیں ہے کہ ہمیں پی ٹی آئی کا امیدوار تصورنہ کیا جائے ۔الیکشن کمیشن کی طرف سے درخواست گزار کو آزاد امیدوار لکھنا واضح طور پر غیرآئینی ، غیرقانونی اوربنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کسی جماعت کا انتخابی نشان واپس لینے سے وہ جماعت تحلیل نہیں ہوجاتی۔انتخابی نشان واپس لینے کے علاوہ باقی اقدامات غیر آئینی اور آرٹیکل 17کی خلاف ورزی ہیں۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کوآزاد ڈکلیئرکرنےسے کرپشن کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے مائنڈ اپلائی کئے بغیر فیصلہ دیا ہے اس لئے اس فیصلہ کو کالعد م قراردیا جائے۔