اسلام آباد (ای پی آئی) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم جرگہ کونہیں مانتے ، عدالت کاالگ نظام ہے، عدالتیں جرگوں کے تابع نہیں کہ ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کروائیں، پاکستان میں کون ساقانو ن جرگے کی اجازت دیتا ہے کوئی قانون ہے توہم بھی اس پر عمل کریں گے۔جرگے کی اخلاقی اہمیت ہوسکتی ہے لیکن قانونی اہمیت نہیں۔ قانون میں نئی ، نئی چیزیں نہ کریں ، جوقانون کہتا ہے وہ کریں، نئی ، نئی چیزیں ہورہی ہیں، بس عدالتوں کا وقت ضائع ہورہا ہے،ہم پاکستان کے قانون کی چیزوں کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔

یہ پالیسی فیصلہ ہے کہ موٹروے پولیس میں میاں بیوی کاالگ ، الگ جگہوں پر تبادلہ ہوسکتاہے کہ نہیں اس حوالہ سے نئی پالیسی جاری کردیں، پالیسی فیصلہ بھی رکھیں گے اس پر عمل بھی نہیں کریں گے، پالیسی بنانا سرکار کاکام ہے اپنے اختیار ہمیں کیوں دے رہے ہیں، اپنے اختیاراپنے پاس رکھیں۔ میاں بیوی دونوں کا تبادلہ کرتے ایک کاتبادلہ کیوں کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعہ کے روز مختلف مقدمات کی سماعت کی۔بینچ نے ازمیر شاہ کی جانب سے ظاہر شاہ اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مہربانی کر کے انگریزی کا قتل نہ کریں ، ڈیل اورایگریمنٹ میں بہت فرق ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون میں نئی ، نئی چیزیں نہ کریں ، جوقانون کہتا ہے وہ کریں، نئی ، نئی چیزیں ہورہی ہیں، بس عدالتوں کا وقت ضائع ہورہا ہے،ہم پاکستان کے قانون کی چیزوں کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تینوں عدالتوں سے ہارے ہیں یا کسی عدالت سے جیتے بھی ہیں اگر ہارے ہیں تو پھر رہنے ہی دیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

بینچ نے گل عظیم اوردیگر کی جانب سے بادشاہ محمد کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ جرگے کے فیصلے پر عدالت سے عملدرآمد کروارہے ہیں، اس کامطلب ہے کہ سول کورٹ جرگہ کے تابع ہوگئے، ثبوت کے طور پر فیصلہ پیش کرسکتے ہیں، جس کیس پر ساری عمارت کھڑی کی اس کو نہیں لگایا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جرگہ کو ہم لوگ نہیں مانتے آپ جاکر فیصلہ کرلیں، عدالت کاالگ نظام ہے، جرگوں کے عدالتیں تابع نہیں کہ ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کروائیں، پاکستان میں کون ساقانو ن جرگے کی اجازت دیتا ہے کوئی قانون ہے توہم بھی اس پر عمل کریں گے۔

جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ تینوں عدالتوں نے درخواست گزار کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میراآپ کے ساتھ سودا ہوا ہے ثابت کرو کہ میں نے آپ کے پیسے دینے ہیں،جرگے کی اخلاقی اہمیت ہوسکتی ہے لیکن قانونی اہمیت نہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

بینچ نے نیشنل ہائی ویز اینڈموٹرویز پولیس کے انسپکٹر جنرل اسلام آباد اوردیگر کے توسط سے عفت نواز کے خلاف تبادلہ کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان اور موٹروے پولیس کے حکام اورمدعا علیہ پیش ہوئے۔ مدعا علیہ نے بتایا کہ میں سینئر پیٹرولنگ آفیسر ہوں اور میری بیوی پیٹرولنگ آفیسر ہے ہماری گجرات میں تعیناتی تھی تاہم میرا تبادلہ گھوٹکی کردیا گیا، اب میں 10ماہ بعد گوجرانوالہ واپس آگیا ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میاں بیوی دونوں کا تبادلہ کرتے ایک کاتبادلہ کیوں کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ پالیسی فیصلہ ہے کہ موٹروے پولیس میں میاں بیوی کاالگ ، الگ جگہوں پر تبادلہ ہوسکتاہے کہ نہیں اس حوالہ سے نئی پالیسی جاری کردیں، پالیسی فیصلہ بھی رکھیں گے اس پر عمل بھی نہیں کریں گے، پالیسی بنانا سرکار کاکام ہے اپنے اختیار ہمیں کیوں دے رہے ہیں، اپنے اختیاراپنے پاس رکھیں۔ عدالت نے قراردیا کہ درخواست 640دن تاخیر سے دائر کی گئی ہے ۔عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی.
بشکریہ صباح نیوز