کوئٹہ (ای پی آئی) برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی اردو نے بلوچستان میں 26 اگست کو ہونے والے دہشت گرد حملوں کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ خود کش بمباروں میں سے ایک تربت یونیورسٹی میں وکالت کی طالبہ ماہل بلوچ بھی تھیں۔
اسی نام کی ایک خاتون کو کچھ عرصہ پہلے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم بی بی سی کا کہنا ہے کہ خود کو دھماکے سے اڑا دینے والی ماہل بلوچ الگ ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بیلہ میں خود کش حملے سے محض تین روز قبل 23 سالہ ماہل بلوچ یونیورسٹی کی چھٹی ختم ہونے کے بعد گھر سے روانہ ہوئیں اور ان کا گھر ضلع گوادر سے 25 کلو میٹر دور سربند میں تھا۔
ان کے والد نے بتایا کہ جس دن وہ گھر سے روانہ ہوئیں تب کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا، اور ماہل بلوچ نے 23 اگست کی شام کو گھر فون کرکے بتایا کہ موبائل خراب ہے اس لیے وہ خود رابطہ کریں گی۔ اس کے بعد ٹھیک تین دن بعد یعنی 26 اگست کو یہ اطلاع ملی کہ بیلہ کے مقام پر سیکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ کے دروازے پر خود کش حملہ ہوا جو ماہل بلوچ نے کیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان پولیس نے اس بات کی تصدیق کی کہ دو خودکش حملہ آوروں میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔ ایس ایس پی کیپٹن نوید عالم نے بتایا کہ ایف سی کیمپ پر حملہ کرنے والے 5 شدت پسند ہلاک ہوئے جن میں ماہل نامی خاتون سمیت 3 خود کش بمبار شامل تھے۔
دوسری جانب کالعدم بی ایل اے کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ماہل بلوچ نے 2022 میں باقاعدہ طور پر تنظیم میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد 2023 میں وہ مجید برگیڈ کا حصہ بنیں اور اس دوران انہوں نے تربیت بھی لی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماہل بلوچ نے ڈگری کالج گوادر سے ایف اے کیا اور اس کے بعد تربت یونیورسٹی میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا جہاں وہ آخری سمیسٹر کی طالبہ تھیں۔ ان کا تعلق گودار کے ایک سیاسی گھرانے سے تھا۔رپورٹ کے مطابق ماہل بلوچ کے والد کا پورا نام کہدہ حمید اعصا ہے، جو سربندر یونین کو نسل کے دو بار چیئرمین رہ چکے ہیں اور ان کے چچا دو بار گوادر کے ضلعی ناظم اور چیئرمین رہے ہیں جبکہ ایک ماموں سرکاری افسر بھی ہیں۔