اسلام آباد (عابدعلی آرائیں )آئین میں کی جانے والی ترامیم کو 26ویںآئینی ترامیمی ایکٹ 2024کا نام دیا گیا ہے
اس ایکٹ میں ملک کی اعلی عدالتوں ،ججزاور دیگرمعاملات کے حوالے سے 54 مجوزہ ترامیم شامل ہیں ۔
یہ ایکٹ پاس ہونے کے فوری بعد نافذالعمل ہوگا۔

اس بل کی پانچویں ترمیم میں سپریم کورٹ کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 63 اے میں دیئے گئے فیصلہ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے

آئین کے آرٹیکل 63 اے کی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اگر کسی رکن پارلیمان نے پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ دیا تو وہ ووٹ شمار کیا جائے گااس ووٹ کونظر انداز نہیں کیاجائے گا۔

آرٹیکلز68،78،81،100،111،114،165،175،میں وفاقی آئینی عدالت کے الفاظ شامل کئے جائیں گے۔

ججز تعیناتی کمیشن کی تشکیل تبدیل
آئین کے آرٹیکل 175 اے کی ذیلی شق میں اعلی عدلیہ کے ججز کی تعیناتی کےلئے قائم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں تبدیلی کی گئی ہے۔ نئی تشکیل کے مطابق ججز تعیناتی کمیشن کے چیئرمین وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس ہونگے انکے ساتھ وفاقی آئینی عدالت کے دو سینئر جج،
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سینئر جج
وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف
اٹارنی جنرل برائے پاکستان
ایک سینئر وکیل یا وہ وکیل جس نے سپریم کورٹ میں کم از کم بیس سال پریکٹس کی ہو اور اسےپاکستان بار کونسل کی طرف سے دو سال کی مدت کے لیے نامزد کیا جائے گا
سینیٹ اور قومی اسمبلی سے 2دو ممبران
قومی اسمبلی سے ایک رکن حکومتی بینچ سے اور ایک اپوزیشن بینچ سے ہوگا۔
اسی طرح سینیٹ سے بھی ایک رکن حکومتی بینچ سے اور ایک اپوزیشن بینچ سے ہوگا۔
حکومتی بینچ سے رکن کا نامزدگی قومی اسمبلی کے قائد ایوان کی جانب سے ہوگی، جبکہ اپوزیشن بینچ سے نامزدگی قائد حزب اختالف کی جانب سے ہوگی۔
اگر قومی اسمبلی تحلیل ہو تو اس مدت کے دوران باقی دو اراکین سینیٹ سے نامزد کیے جائیں گے۔

وفاقی آئینی عدالت میں چیف جسٹس و ججزکی تقرریاں
• وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کو صدر وزیر اعظم کے مشورے پر مقرر کریں گے۔
• وفاقی آئینی عدالت کے پہلے ججوں کی تقرری بھی صدر کے ذریعے کی جائے گی، اور یہ تقرریاں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد ہونگی۔

بعدمیں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری قومی اسمبلی کی کمیٹی کی سفارش پر کی جائے گی، کمیٹی وفاقی آئینی عدالت کے تین سینئر ترین ججوں میں سے ایک کو نامزد کرے گی۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی نامزدگی کو وزیر اعظم کے پاس بھیجے گی، جو اسے صدر کو تقرری کے لیے ارسال کریں گے۔
وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل:
o وفاقی آئینی عدالت ایک چیف جسٹس اور دیگر ججوں پر مشتمل ہوگی جن کی تعداد پارلیمنٹ یا صدرکے حکم سے مقرر کی جائے گی۔
o ہر صوبے کو وفاقی آئینی عدالت میں برابر کی تعداد میں ججز دیے جائیں گے۔
o صدر حکم نامے کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل اور کام کرنے کے لیے ضروری اقدامات کر سکتے ہیں

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، ججزکی تقرریاںاور کمیشن
عدالت عظمی کے چیف جسٹس ، چیف جسٹس آف پاکستان کی بجائے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کہلائیں گے
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر، تین سینئر ترین ججوں میں سے کی جائے گی۔

سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیےسپریم کورٹ کے چیف جسٹس ججزتعیناتی کمیشن کے چیئرپرسن ہوں گےجبکہ پانچ سینئر ترین جج صاحبان کمیشن کے اراکین ہوں گے کمیشن کے باقی ارکان وہی رہیں گے جوکمیشن کی تشکیل میں دیئے گئے ہیں ۔
کمیشن ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی کاجائزہ بھی لے سکے گا۔

ججز تعیناتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی 8 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی تناسب کے حساب سےنمائندگی ہوگی یہ کمیٹی اسپیکر قومی اسمبلی قائم کریں گے۔کمیٹی کے اجلاس ان کیمرہ ہوا کریں گے۔

ریٹائرمنٹ کی عمر:
o وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے، جب تک کہ وہ پہلےاستعفٰی نہ دے دیں یا آئین کے مطابق عہدے سے نہ ہٹا دیے جائیں۔
o اگر سپریم کورٹ کے سابق جج کو وفاقی آئینی عدالت کا جج مقرر کیا جاتا ہے تو وہ تین سال کی مدت کے لیے عہدے پر فائز رہیں گے، جب تک کہ وہ پہلے استعفٰی نہ دیں یا آئین کے مطابق عہدے سےنہ ہٹا دیے جائیں۔
o چیف جسٹس کے لیے بھی تین سال کی مدت مقرر کی گئی ہے یا اس وقت تک جب تک وہ 68 سال کی
عمر کو نہ پہنچ جائیں یا آئین کے مطابق عہدے سے نہ ہٹا دیے جائیں۔

دوہری شہریت والے سپریم کورٹ یا ہائیکورٹس کے جج نہیں بن سکیں فے

چیف جسٹس آف سپر یم کورٹ کی مدت:
سپر یم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی، یا جب تک وہ استعفٰی نہ دے د یں یا 65 سال کی عمر کو نہ
پہنچ جائیں، یا انہیں آئین کے مطابق عہدے سے ہٹا نہ دیا جائے، جو بھی پہلے ہو۔

وفاقی آئینی عدالت میںقائم مقام ججز
صدرمملکت سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے ججزمیں سے کسی کوبھی وفاقی آئینی عدالت میں بطور قائم مقام جج تعینات کرسکتے ہیں۔
آئینی سوالات کے حوالے سے اپیل
– اگر معاملہ آئین کی تشر یح سے متعلق کوئی اہم قانونی سوال اٹھاتا ہے، تو ی ہ کیس فور ی طور پر وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کر دیا جائے گا۔
– اگر وفاقی آئینی عدالت اور سپر یم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھے، تو اس کا فیصلہ وفاقی آئینی عدالت کرے
گی۔
وفاقی آئینی عدالت کا اختیار :
– وفاقی آئینی عدالت کو اختیار ہوگا کہ وہ آرٹیکل 199 کے تحت کسی بھی ہائی کورٹ میں شروع کی گئی کارروائی ک کسی دوسر ی ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکے۔
ہائیکورٹ آرٹیکل 199 کی ذیلی شق ایک کے تحت کسی معاملے میں ازخود نوٹس لیکر حکم جاری نہیں کرسکے گی۔

آرٹیکل 200میں کی گئی ترمیم کے مطابق صدر مملکت کسی جج کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں بھیج سکتے ہیں۔اس کےلئے جج کی رضامندی اور متعلقہ چیف جسٹسز کی مشاورت لازمی ہوگی۔

آرٹیکل 209کے تحت سپر یم جوڈیشل کونسل کا قیام
ججز کے مواخذے کیلئے پاکستان میں ایک سپر یم جوڈیشل کونسل ہوگی، جسے اس باب میں "کونسل” کہا جائے گا۔
کونسل مندرجہ ذیل اراکین پر مشتمل ہوگی:
وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس
سپر یم کورٹ کے چیف جسٹس
وفاقی آئینی عدالت کے سب سے سینئر جج
دو سب سے سینئر ہائی کورٹس کے چیف جسٹس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئین کے اآرٹیکل 210 کی ترمیم:
نمبرایک
ذیلی شق )1 میں تبدیلی:
آئین میں جہاں کہیں بھی "سپر یم کورٹ” کے الفاظ آتے ہیں، ان کی جگہ "وفاقی آئینی عدالت یا سپر یم کورٹ کے الفاظ شامل کیے جائیں گے۔

آئین کے آرٹیکل 239 کی ذیلی شق 5 میں تبدیلی
عدالت بشمول سپر یم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بھی فیصلے کے باوجودآئین کا کوئی بھی حصہ یااس میں کی گئی کسی بھی ترمیم پرکسی بھی عدالت، بشمول وفاقی آئینی عدالت یا ہائی کورٹ، میں کسی بھی بنیاد پرسوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ کوئی بھی حکم، فیصلہ یا اعلان جو اس کے برعکس ہو، قانونی اثر سے محروم ہو گااور بے اثر سمجھا جائے گا۔”

آئئین کے تیسرے شیڈول میں،،آرٹیکلز 178 اور 194 میں دی گئی ججز کے حلف میں ترمیم کی جائےگی ۔

یہ ترمیم آئینی دفعات میں وضاحت اور قانونی افسران کے کردار اور تعیناتی کے حوالے سے اہم تبدیلیوں کے لئے متعارف کرائی گئی ہے ان میں عدالتوں کی وضاحت ،مختلف عہدوں کے لئے اہلیت شرائط اورججز کے حلف کے الفاظ میں تبدیلی کی گئی ہے ۔