اسلام آباد (عابدعلی آرائیں) اسپیکرقومی اسمبلی سردارایاز صادق نے چیف الیکشن کمشنرسکندرسلطان راجہ کو خط لکھا ہے۔
تین صٖفحات اورچھ پیراگراف پرمشتمل خط میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما نے موقف اپنایا ہے کہ بطور سپیکر قومی اسمبلی میں ملک میں جمہوری وپارلیمانی بالادستی اور اس کے اثرات کے نظریہ کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل مسئلہ کو حل کرنے کی خواہش ہے۔

ایازصادق نے کہا ہے کہ ملک میں اپنے پارلیمانی نظام کی آزادی اور وقار کے لیےپارلیمانی بالادستی کے اصولوں کوقائم رکھنا انتہائی ضروری ہے ایسا کوئی بھی عمل جو پارلیمنٹ کی بالادستی کوانڈرمائن کرتاہو اس سے عوام کاہمارے اداروں پر عوام کا اعتماد اور بھروسہ متاثر ہوتا ہے

پیراگراف دو

اسپیکرقومی اسمبلی ایاز صادق نے لکھا ہے کہ قابل احترام سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل ودیگر بنام الیکشن کمیشن کیس کے 12 جولائی 2024 کو دیے گئے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ آزاد

حیثیت میں انتخابات جیتنے والے امیدواروں کو ایک اور
سیاسی پارٹی جوائن کرنے کی اجازت دے اگرچہ جنرل الیکشن 2024کے میں وہ پہلے ہی ایک سیاسی جماعت کو جوائن کر چکے ہیں۔سپیکر نے کہا ہے کہ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے جیتنے والے امیدواروں کوسیاسی جماعت تبدیل کرنےکی اجازت دے دی ہے اور انہیں کنفرم کر دیا ہے کہ وہ اس پارٹی کے امیدوار ہیں اسپیکر نے کہا ہے کہ انہیں آزاد امیدوار تصور کیا جائے گا۔انہیں کسی بھی سیاسی جماعت کاامیدوار قرار نہیں دیا جاسکتا۔

پیراگراف تین

اسپیکر نے اپنے خط کے تیسرے پیراگراف میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے بارہ جولائی کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ یعنی مجلس شوریٰ نے الیکشن ایکٹ 2024 دوسری ترمیم پاس کی ہے۔جس کی منظوری صدر مملکت نے 7 اگست 2024 کو دی اور یہ قانون گزٹ آف پاکستان میں 9 اگست2024کوشائع کیا گیا اس ترمیم میں دو مخصوص شقوں میں ترمیم کی گئی اور

سپیکر نے الیکشن ایکٹ 2017 کی ترمیم شدہ شق 66 اورشق104 اے کو بھی اپنے خط کا حصہ بنایا ہے
الیکشن ایکٹ کی ترمیم شدہ شق چھیاسٹھ میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی امیدوار انتخابی نشان الاٹ کروانے سے پہلے ریٹرننگ افسر کے سامنے کوئی ڈکلیریشن جمع نہیں کرایاکہ وہ کس مخصوص سیاسی جماعت کا نمائندہ ہے تو اسے ایک آزاد امیدوار تصور کیا جائے گا۔ اسے کسی سیاسی جماعت کا امیدوار تصور نہیں کیا جائے گا۔

الیکشن ایکٹ کی شق 104 اے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں
نافذالعمل کسی بھی ایکٹ،رولز یا کسی اور قانون یا ملک کی سپریم کورٹ ،ہائی کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کا فیصلہ ،بیان حلفی یا اورکوئی بھی نام ہو اس کا اطلاق اس وقت نہیں ہوگا جب کوئی انتخابات جیتنے والا امیدوارایک دفعہ کوئی جماعت جوائن کرلے تواسی پر عمل درآمد ہوگا۔ کسی سیاسی جماعت کو جوائن کرنے کے بعد وہ اس کو تبدیل یا واپس نہیں لے سکتا۔

پیراگراف نمبر 4

سپیکر نے لکھا ہے کہ ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق ایک کی ذیلی شق 2واضح طور پر بتاتی ہے کہ اس ترمیم کا اطلاق اس وقت سے ہوگا جب 2017میں یہ ایکٹ پاس کیا گیا تھا۔

پیراگراف نمبر 5
اپیکر قومی اسمبلی نے لکھا ہے کہ اس تناظر میں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ آزاد کامیاب امیدوار جس پہلے ایک سیاسی جماعت جوائن کر لی تھی اس کو پارٹیاں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اسپیکر نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ پر مکمل طور پر عمل درآمد کیے بغیر کسی کو اب نئی ایلوکیشن نہیں کرسکتا۔

اسپیکر نے لکھا ہے کہ کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس ترمیم کے آنے سے پہلے فیصلہ دیاہے اس لیے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے لکھا ہے کہ اب ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کا اطلاق ہوگااوراس ترمیم سے پہلے دی گئی رولنگ کو سپر سیڈ کیا جائے گا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اوپر جو کچھ کہا گیا ہے وہ صرف میری رائے نہیں ہے اور حقیقت میں یہی رائے عزت مآب سپریم کورٹ کی بھی ہے

پیراگراف 6

اسپیکر نے الیکشن کمشنرسے کہا ہے کہ اپنے خط میں
آپ کے نوٹس میں یہ بات لائی جاتی ہے کہ ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ اس وقت فیلڈ میں ہے اس لیے الیکشن کمیشن کی قانونی ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے بنائے گئے قوانین کو عزت دے اور پارلیمانی بالادستی سمیت جمہوریت کے اصولوں کی پاسداری کرے