اسلام آباد (عابد علی آرائیں )سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے تفصیلی حکمنامہ جاری کر دیا ہے 70 صفحات اور122 پیرا گراف پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے ۔
تیرہ رکنی فل کورٹ بینچ نے9 جولائی 2024 کو آخری سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا

پہلے چار صفحات پر درخواست گزاران اور مقدمے میں فریق بنائے گئے افراد کی تفصیل دی گئی ہے

فیصلے میں عدالت نے 3 صفحات(5تا 7) پر دیپاچہ لکھا

پانچ صفحات (8تا11)پر انتخابی تنازعات کی نوعیت اور عدالتوں کی ذمہ داری تحریر کی گئی

ایک صفحے(12 ) پر کیس سے متعلق حقائق ،

دو صفحات (13 اور 14 )پر تحریک انصاف کی مقدمے میں فریق بننے کی درخواست نمبر 5913/2024کے حوالے سے لکھا گیا ہے

ایک صفحہ نمبر (15 )پر سنی اتحاد کونسل یا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کی فراہمی کا دعویٰ اور قانونی سوالات کے بارے میں لکھا گیا ہے

دو صفحات نمبر( 16اور 17 )پر آئین کے آرٹیکل 17 /2 میں دیئے گئے بنیادی حق کا سکوپ دیا گیا ہے

تین صفحات ( 18 ، 19 اور 20 )پر آئین کے آرٹیکل 19 میں دیا گیا ووٹ کا حق اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے تحریر کیا گیا ہے جس میں دو سوالا ت بھی اٹھائے گئے ہیں

سوال نمبر 1

الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 215 کی ذیلی شق 5 کے تحت کسی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان حاصل کرنے کے لئے نا اہل قرار دینے کے اثرات کیا ہونگے ؟

سوال نمبر 2

کیا کسی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان دینے سے انکار کے ڈیکلیریشن کے اس سیاسی جماعت کے دیگر آئینی اور قانونی حقوق متاثر ہوتے ہیں ۔

دو صفحات (21 اور 22) پر بنیادی حقوق سلب کرنے کے حوالے سے قانونی اصول اور اثرات کا احاطہ کیا گیا ہے

ایک صفحہ نمبر (23 ) پر سوال نمبر ایک کا جواب اور پی ٹی آئی کے حق میں فیصلے کے اطلاق کے بارے میں لکھا گیا ہے ۔

دو صفحات (24 اور 25 ) پر الیکشن رولز 2017 کو الیکشن ایکٹ اور آئین سے متصادم قرار دیا گیا ہے ۔

ایک صفحہ نمبر (26) پر عدالت نے اس معاملے پر اپنی رائے دی ہے کہ کیا انتخابی نشان کے لئے نا اہل کسی سیاسی جماعت کی طرف سے نامزد امیدوار کو انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی فہرست (فارم 33 میں )آزاد امیدوار قرار دیا جا سکتا ہے ؟اور کیاایسے کامیاب امیدوار کو آزاد کامیاب امیدوار قرار دیکر شق 98 کا نوٹیفکیشن جا ری کیا جا سکتا ہے ۔؟

ایک صفحہ نمبر( 27 ) پر عدالت نے آئین کے آرٹیکل 17/2 کا حوالہ دیکر واضح کیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا اپنے نامزد امیدواروں کے ذریعے انتخاب میں حصہ لینا اس جماعت کا آئینی حق ہے ۔

تین صفحات (28 تا 30 ) پر عدالت نے واضح کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 2 فروری 2024 کو پی ٹی آئی امیدوار سلمان اکرم راجہ کی درخواست پر الیکشن کمیشن کی طرف سے دیا گیا فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے ۔

ایک صفحہ نمبر (31) پر عدالت نےقوانین کی تشریح اور قانون بنائے جانے کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے ۔

ایک صفحہ نمبر( 32 )پر عدالت نے سوال نمبر2 کا جواب اور اس کے پی ٹی آئی پر اطلاق سمیت بیرسٹر گوہر علی کان کو بطور چیئرمین پی ٹی آئی جاری کی گئی ٹکٹ کی validity کے بارے میں لکھا ہے

چار صفحات (33 تا 36) پرعدالت نے آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کا حوالہ دیکر بتایا ہے کہ آئین انتخابات میں حصہ لینے اور جنرل نشستیں جیتنے اور رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے بارے میں کیا کہتا ہے ۔

دو صفحات (37 اور 38 ) پر عدالت نے اس تاثر کےبارے میں لکھا ہے کہ قانون میں استعمال کئے گئے ایک جیسے الفاظ کے معنی ایک جیسے ہوتے ہیں یا مختلف الفاظ معنی مختلف ہوتے ہیں ۔

ایک صفحہ نمبر (39 ) پر عدالت نے بتایا ہے کہ آرٹیکل 51 (6 )میں عدالت نے وضاحت کی ہے کہ لفظ securedاور wonکے معنی ایک جیسے ہیں

تین صفحات نمبر (40 تا 42) پر عدالت نے آئین کے آرٹیکل 51 سکس ڈی کے حوالے سے تحریر کیا ہے ۔

دو صفحات (43 اور 44) پر عدالت نے آرٹیکل 51 سکس ڈی میں سیاسی جماعت کے ساتھ لکھے گئے لفظ such لکھنے کے اثرات اور آرٹیکل 51 کو آرٹیکل 63 اے کے ساتھ پڑھنے کے خوفناک نتائج کے بارے میں تحریر کیا ہے ۔

ایک صفحہ نمبر (45) پر عدالت نے سوال نمبر 3 کا جواب اور اس کا سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی پر اطلاق ہونے کے بارے میں واضح کیا ہے ۔

دو صفحات (46 اور 47) عدالت نے آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے تحت کسی سیاسی جماعت کو متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے حوالے سے سوال نمبر4 کا جواب دیا ہے ۔انہی دو صفحات پر عدالت نے پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کے آزاد ممبران کی پوزیشن کے بارے میں لکھا ہے ۔

ایک صٖحہ نمبر (48) پر عدالت نے وضاحت کی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے متناسب نمائندگی کا نظام ایک جامع نظام ہے ۔

ایک صفحہ نمبر (ـ49) پر عدالت نے سیاسی جماعتوں کو خواتین اور اقلیتوں کے حوالے سے آئینی مقاصد بتائے ہیں ۔

ایک صفحہ نمبر (50) پر عدالت نے سوال نمبر 4 کا جواب دیا ہے اور اس ضمن میں پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں پر اس کے اطلاق کے بارے میں واضح کیا ہے کہ متناسب نمائندگی میں مخصوص نشستوں کے مطلوبہ شیئر کی فراہمی سے انکار کسی بھی سیاسی جماعت کو آئین کے آرٹیکلز 17 اور 19 میں حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔

ایک صفحہ نمبر( 51 )پر عدالت نے واضح کیا ہے کہ کونسا ریلیف دینے سے انصاف کی فراہمی ممکن ہو گی ۔

ایک صفحہ نمبر (52 )پر بتایا گیا ہے کہ ریٹرننگ افسران اور الیکشن کمیشن کے غیر قانونی اقدامات اور کوتاہیوں کی وجہ سے ہی ٹی آئی کا حق متاثر ہوا ہے ۔

دو صفحات نمبر (53 اور 54 ) پر عدالت نے آئین کے آرٹیکل 218/3 کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات اور آرٹیکل 187/1 کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات واضح کیئے ہیں ۔

پانچ صفحات (55 تا 59) میں عدالت نے 8 اور 3 ججز کے درمیان اختلاف کے نکات پر اپنی رائے دی ہے۔

تین صفحات (60 تا62) پر عدالت نے تحریر کیا ہے کہ الیکشن کمیشن بطور جمہوری عوامل کے ضامن ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے ۔

ایک صفحہ نمبر (63 ) پر عدالت نے پی ٹی آئی کے سپریم کورٹ میں آنے کے حوالے سے لکھا ہے ۔

سات صفحات نمبر (64 تا 70) پر عدالت نے پی ٹی آئی کو دیا گیا ریلیف اور اپنا مختصر حکم شامل کیا ہے جس میں پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی انتخابات جیتنے والے41 امیدواروں کی فہرست شامل کرتے ہوئے آخری تین پیرا گراف 120اور 121 میں فیصلے سے اختلاف کرنے والے دو ججز جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی فیصلوں میں دی گئی آبزرویشن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان دونوں ججز نے اپنے اختلافی نوٹس میں سپریم کورٹ کے ججوں کی طرح رویہ اختیار نہیں کیا ،ان دونوں ججز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اکثریتی ججز کی طرف سے 12 جولائی کو دیا گیا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہے اور ان ججز نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ،ان ججز نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے جیتنے والے 39 پلس 41 افراد اس اکثریتی فیصلے کی بنیاد پر کوئی اقدامات کرتے ہیں تو وہ آئین کے مطابق نہیں ہوگا ،ان ججز نے یہ بھی لکھا تھا کہ آئین کی خلاف ورزی کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے امیدوار اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں ۔ان 2ججز نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ عدالت کے کسی بھی ایسے غیر آئینی حکم پر عملدرآمد ریاست کے دوسرے ستون پرلازم نہیں ہے ۔

8 رکنی اکثریتی فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ ہمیں ان کے خیالات اور سمجھ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے،اس عدالت کے بینچ کے ممبران کے طور پر حقائق اور قانون کے حوالے سے اختلاف کیا جا سکتا وہ ججز سختی کے ساتھ اپنی اختلافی رائے دیتے ہوئے وجوہات کے ساتھ کمنٹس کر سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کیوں سمجھا کہ دیگر ممبران نے غلطی کی ہے ،جس انداز میں انھوں نے اپنا اختلاف ظاہر کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں میں اس شائستگی اور تحمل کی کمی ہے جو اعلیٰ عدالتوں کے ججز میں ہونی چاہیے ،اس سے زیادہ پریشان کن یہ بات ہے کہ دو ججزاپنے پیرا میٹرز سے آگے نکل گئے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے حکم میں یہ کہا ہے کہ 39 جمع 41 یعنی پی ٹی آئی کے واپس آنے والے 80 امیدوار سپریم کورٹ کے اس اکثریتی حکم کو نہ مانیں جو کہ سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ بینچ کا فیصلہ ہے ۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس طرح کی آبزرویشنز ملک میں انصاف کے سب سے بڑے ادارے کے وقار کو انڈر مائینڈ کرتی ہیں اور ایسا کرنا عدالتی عمل اور انصاف کی فراہمی کو روکنے کی کوشش نظر آتی ہے ۔

عدالت نے اپنے فیصلے کے آخری پیراگراف نمبر 122 میں لکھا ہے کہ عوامی نوعیت کے اس فیصلے کے پیش نظر دفتر کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس فیصلے کی اردو ٹرانسلیشن یقینی بنائی جا ئے تاکہ آئین کے آرٹیکل 19 اے اور آرٹیکل 251 کے مطابق عوام کی معلومات تک رسائی بڑھائی جا سکے ۔
عدالت نے لکھا ہے کہ فیصلے کا اردو ورژن کیس کے ریکارڈ میں بھی رکھا جائے گا اور عدالتی ویب سائیٹ پر بھی اپ لوڈ کیا جائے گا اور لاء جرنلز میں بھی دونوں انگلش اور اردو ورژن شائع کئے جائیں گے ۔

///////////////////////////////
پیرگراف 14 تا 30

سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے کیس کے تفصیلی فیصلے کے پیرا گراف 14 میں لکھا ہے کہ
15 دسمبر 2023 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کا الیکشن پروگرام جاری کیا ۔پروگرام کے مطابق ریٹرننگ افسران کے پاس امیدواروں کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 22 دسمبر 2023 تھی ،اس تاریخ میں 2 روز یعنی 24 دسمبر تک توسیع کی گئی 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے زیر التواء انٹرا پارٹی انتخابات کے معاملے پر فیصلہ سنایا ،الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ پی ٹی آئی نے اپنے انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی کے آئین اور الیکشن قوانین کے تحت نہیں کرائے جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی انتخابی نشان حاصل کرنے کی اہل نہیں ہے ،اگرچہ الیکشن کمیشن کا یہ حکم ابتدائی طور پر 26 دسمبر 2023 کو معطل کیا گیا اس کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے 10 جنوری 2024 کو یہ حکم کالعدم قرار دیدیا ۔

سپریم کورٹ نے 13 جنوری 2024 کو الیکشن کمیشن کا حکم بحال کر دیا اس طرح پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ ختم ہو گیا ۔پی ٹی آئی کے امیدواروں کو پی ٹی آئی کی جماعت کا نمبر االاٹ کرنے کی بجائے ان آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن کی طرف سے مختلف نشانات الاٹ کر دیئے گئے ۔

پیراگراف نمبر 15

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکشن پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے ریٹرننگ افسران نے انتکابی امیدواروں کی فہرستیں (فارم 33) جاری کئے جن میں پی ٹی آئی کے امیدواروںکو زاد امیدوار قرار دیا گیا ،پی ٹی آئی کے امیدواروں میں سے ایک سلمان اکرم راجہ نے ریٹرننگ افسر کے اس اقدام الیکشن کمیشن کے سامنے چیلنج کیا ،الیکشن کمیشن نے 2 فروری کو سلمان اکرم راجہ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اسے آزاد امیدوار ڈیکلیئر کر دیا ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ انتخابات کے لئے پولنگ 8 فروری کو ہوئی اور پی ٹی آئی کے جیتنے والے امیدواروں کی جیت کے حوالے سے الیکشن ایکٹ کی شق 98 کے تحت آزاد امیدوار کی جیت کا آفیشل گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ،

پیراگراف نمبر 16
عدالت نے لکھا ہے کہ شق 98 کے تحت نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی میں 86 امیدوار پنجاب اسمبلی میں 107 میں خیبرپختونخوا اسمبلی 90 اور سندھ اسمبلی کے 7 امیدواروں نے سیاسی جماعت سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تاکہ وہ قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں متناسب نمائندگی کے تحت اپنی سیٹیں حاصل کر سکیں ۔سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کو ان کامیاب امیدواروں کی جوائننگ سے متعلق آگاہ کیا اور الگ الگ درخواستوں کے ذریعے 21 فروری 2024 کو درخواست کی کہ ان کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں جائز شیئر پارٹی کو دیا جائے۔

پیراگراف نمبر 17

عدالت نے لکھا ہے کہ کچھ دوسری سیاسی جماعتوں جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کی مخالف میں درخواستیں دائر کیں ،جن میں استدعا کی گئی کہ مخصوص نشستیں ان دونوں جماعتوں سمیت دیگر اہل جماعتوں کو دی جائیں اس حوالے سے کچھ افراد نے انفرادی طور پر بھی سنی کونسل کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے مخصوص نشستیں انھیں انفرادی طور پر دینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم نہ کیا جائے۔

عدالت نے لکھا ہے کہ سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین الیکشن کمیشن کے سامنے ایم کی ایم کی درخواست میں فریق بنائے جانے کی بنیاد پر پیش ہوئی جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں ،جمعیت علمائے اسلام پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ نواز الیکشن کمیشن کے نوٹس پر پیش ہوئیں اور انھوں نے بھی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی مخالف کی ۔

پیراگراف نمبر 18

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن یکم مارچ 2024 کو سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کر دی اور فیصلہ سنا دیا کہ خواتین اور غیرمسلموں کی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہیں دی جائیں گی ،یہ مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی کے ذریعے دی جائیں گی ،الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی کی 19خواتین اور3 غیرمسلموں کی نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دیدی گئیں ،خیبرپختونخوا اسمبلی کی 21 خواتین اور 4غیر مسلموں کی سیٹیں
پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین اور 3 غیر مسلموں سیٹیں ،سندھ اسمبلی میں 2 خواتین اور 1 غیر مسلم مخصوص سیٹیں دیگر پارٹیوں کو دیدی گئیں ۔اس طرح مجموعی طور پر 78 متنازعہ سیٹیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دیدی گئیں ۔

سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے رٹ دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا،پشاور ہائیکورٹ نے 25 مارچ 2024 کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی درخواست خارج کر دی

پیرگراف نمبر 19

پی ٹی آئی کی فریق بننے کی درخواست

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھیں تو اس دوران پاکستان تحریک انصاف نے مقدمے میں فریق بننے کی درخواست دائر کی اور عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ کیا مخصوص حقائق اور حالات تھے جن کی وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی ،پی ٹی آئی نے موقف اپنایا کہ اس نے اپنے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹس جاری کئے تھے وہ پارٹی ٹکٹس نشان الاٹ کرنے کے لئے مختص آخری تاریخ 13 جنوری 2024 کو دن 4 بجے متعلقہ ریٹرننگ افسران کے پاس جمع کرائے۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی پارٹی انتخابات کے معاملے میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی طرف سے دائر کی گئی اپیل اور انتخابی نشان کے معاملے پر 12 جنوری کو سماعت کی جو 13 جنوری کی رات دیر تک جاری رہی ۔

پیراگراف نمبر 19.1

سپریم کورٹ کے ممکنہ مخالف فیصلہ آنے کے خدشے کے باعث پی ٹی آئی نے ایک اور سیاسی جماعت پی ٹی آئی نظریاتی کے ساتھ معاہدہ کیا ،اس جماعت نے بھی پی ٹی آئی کے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کئے تاکہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے لئے ایک نشان حاصل کیا جا سکے اور ملک بھر میں انتخابات کے دوران ابہام سے بچا جا سکے ،تاہم اسی روز چیئرمین پی ٹی آئی نظریاتی قومی ٹی وی چینلز پر نمودار ہوئے اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو جاری کی گئی ٹکٹوں سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا ۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جب پی ٹی آئی نظریاتی کے مالک نے لا تعلقی کا اظہار کیا تو اسی قت الیکشن کمیشن نے 13 جنوری کو ریٹرننگ افسران کو ہدایات جاری کیں کہ ایسے امیدواروں کے پارٹی ٹکٹس قبول نہ کئے جائیں جن کا تعلق کسی دوسری سیاسی جماعت سے ہو۔
اس وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں نے پی ٹی آئی نظریاتی کے ٹکٹس واپس لے لئے اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہی ریٹرننگ افسران کے پاس جمع کرا دیئے کچھ ریٹرننگ افسران نے وہ ٹکٹ فائل میں رکھ لئے جبکہ کچھ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں تاخیر کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا ۔

پیراگراف2، 19

عدالت نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے پارٹی ٹکٹ جمع کرانے اور انتخابی نشان جاری کرنے کے وقت میں اس روز 12 بجے تک توسیع کر دی ،سپریم کورٹ نے اپنا مختصر فیصلہ 13 جنوری کو دن 11 بجے سنایا جس کی بنیاد پر ریٹرننگ افسران نے پی ٹی آئی کے ٹکٹس مسترد کر دیئے اور امیدواروں کو آزاد قرار دیکر مختلف قسم کے نشان الاٹ کئے ۔
عدالت نے لکھا ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدواروں نے بڑے پیمانے پر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیت لیں ،الیکشن کمیشن نے الیکشن رولز 2017 کے رول 94 اور سپریم کورٹ کے 13 جنوری کے فیصلے پر انحصار کرتے ہوئے ان امیدواروں کو بطور آزاد امیدوار نوٹیفائی کر دیا ۔

پیراگراف3، 19

سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 2018 میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے لئے ایک سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کا حق تسلیم کیا حالانکہ اس نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا ،اس لئے پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں نے نوٹیفائی ہونے کے تین روز کے اندر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی یہ ایک پی ٹی آئی کا جاری الائنس یا تعلق ہے اس وجہ سے وہ مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے اہل ہیں ۔

سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنی فریق بننے کی درخواست میں یہ بھی لکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کا بنیادی مقصد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نمائندگی قائم کرنا ہے اور پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں دینے سے انکار پی ٹی آئی کوعوامی نمائندگی سے انکار کرنے کے مترادف ہے جس سے عوامی خواہش کا اظہار نہیں ہوتا ،پی ٹی آئی نے یہ بھی کہا تھا کہ سنی اتحادکونسل یا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے انکار کر کے وہ نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینا عوامی خواہش سے انکار کے برابر ہے ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکلاء نے دلائل کے دوران دعویٰ کیا کہ متنازعہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل یا پی ٹی آئی کو جاری کی جائیں ۔

پیراگراف نمبر 20

سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل کے دوران عدالت کو بتایا کہ کن حالات کے اندر پی ٹی آئی کے امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا تاہم بینچ کے کچھ فاضل ممبران نے اس بات کی نفی کرتے ہوئے سوال اٹھائے کہ وہ کیسے آپس میں متصاد دلائل دے سکتا ہے کہ وہ سنی اتحاد کونسل کا کیس لڑ رہے ہیں پی ٹی آئی کا نہیں،انتہائی ادب کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ دونوں سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی نے ایک ہی موقف لیا کہ مخصوص حالات کی وجہ سے کامیاب امیدوار سنی اتحاد کونسل جوائن کرنے پر مجبور ہوئے ،8 ججز نے قرار دیا ہے کہ کسی بھی طرح انھوں نے متضاد موقف نہیں اپنایا ،دونوں جماعتوں نے کامیاب امیدواروں کو ووٹ دینے والوں کے حق پر زور دیا اورکہا کہ مینڈیٹ کے تحت متنازعہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل یا پی ٹی آئی کو دی جائیں ۔

پیراگراف نمبر 21

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ فریقین کے وکلاء نے مندرجہ ذیل 4 قانونی سوالات عدالتی جائزے کے لئے اٹھائے ہیں

سوال نمبر 1

الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 215 کی ذیلی شق 5 کے تحت کسی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان حاصل کرنے کے لئے نا اہل قرار دینے کے اثرات کیا ہونگے ؟
کیا کسی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان دینے سے انکار کے ڈیکلیریشن کے اس سیاسی جماعت کے دیگر آئینی اور قانونی حقوق متاثر ہوتے ہیں ۔

سوال نمبر 2

کیا انتخابی نشان کے لئے نا اہل کسی سیاسی جماعت کی طرف سے نامزد امیدوار کو انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی فہرست (فارم 33 میں )آزاد امیدوار قرار دیا جا سکتا ہے ؟اور کیاایسے کامیاب امیدوار کو آزاد کامیاب امیدوار قرار دیکر شق 98 کا نوٹیفکیشن جا ری کیا جا سکتا ہے ۔؟
سوال نمبر 3

کیا آئین کے آرٹیکل 51(6 ڈی اور ای ) اور 106 (3 سی )ان سیاسی جماعتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنھوں نے انتخاب میں حصہ لیا اور عام انتخابات میں نشستیں جیتیں یا یہ آرٹیکل تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی نشاندہی کرتے ہیں ؟۔

سوال نمبر 4

آئین کے آرٹیکل 51(6 ڈی اور ای ) اور 106 (3 سی ) کے تحت کس طرح سیاسی جماعتوں میں متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت مخصوص نشستیں تقسیم کی جائیں گی ؟۔

8 ججز نے لکھا ہے کہ ہم ان سوالات ڈسکس کر کے تفصیل سے فیصلہ کریں گے تاہم اس سے پہلے ہم مختصر طور پر آئین کے آرٹیکل 17/2 اور 19 میں فراہم کئے گئے بنیادی حق کی وضاحت کر رہے ہیں کیونکہ سارے کیس کا انحصار اسی پر ہے اور چاروں سوالوں کا جواب بھی اسی میں ہے ۔

پیراگراف 22

عدالت نے اس پیراگراف میں آئین کا آرٹیکل 17 /2 کا مکمل متن شامل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہر شہری چاہے وہ سروس آف پاکستان میں نہیں ہے وہ سیاسی جماعت تشکیل دے سکتا ہے یا کسی سیاسی جماعت کا رکن بن سکتا ہے لیکن وہ ایسا ملکی سلامتی ،وقار اور کچھ قانونی حدود قیود کے اندر رہ کر کر سکتا ہے اور اگر وفاقی حکومت قرار دے کہ قائم کی گئی کوئی سیاسی جماعت ملکی سلامتی اور وقار کے برعکس کام کر رہی ہے تو وفاقی حکومت 15 دن کے اندر ریفرنس کے ذریعے معاملہ سپریم کورٹ بھیجے گی سپریم کورٹ کا ریفرنس پر فیصلہ حتمی تصور کیا جائے گا ۔

عدالت کے 8 رکنی بینچ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ آرٹیکل 17/2 ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص جو سروس آف پاکستان میں نہیں ہے اس کا حق ہے کہ پارٹی تشکیل دے یا پارٹی کا ممبر بنے یہ حق آئین سازوں کے ذہن میں انتہائی اہم تھا جس کی وجہ سےآئین سازوں نے اسے اہمیت دی انہی وجوہات کی بنا پر سیاسی جماعت پر پابندی کا معاملہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں لے جانے کا کہا گیا اس حق کے تحفظ کو یقینی بنانا ملک میں جمہوریت اور نمائندہ حکومت کی تشکیل کے لئے انتہائی اہم ہے اگرچہ تمام عدالتیں اور ٹریبونلز کو بنیادی حقوق کے تحفظ کا مینڈیٹ حاصل ہے لیکن سپریم کورٹ اس کی حتمی محافظ ہے اس لئے سپریم کورٹ کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ آئین پاکستان کے اس آرٹیکل کا تحفظ کرے ، اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ووٹرز اور سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کے اطلاق کے لئے تمام متعلقہ حقائق اور قانونی نکات کی مفصل عدالتی انکوائری کی جائے۔

پیراگراف نمبر 23

عدالت نے نواز شریف بنام صدر پاکستان کیس میں دیئے گئے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق وہ حقوق ہیں جن کی مختصر یا مستقل تعریف یا معنی نہیں ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی سیاسی،سماجی اور معاشی حالات میں تبدیلی آتی ہے جس کی مناسبت سے ان حقوق کے حوالے سے معاملات میں تبدیلی ہو سکتی ہے ۔عدالت نے کہا ہے کہ اس فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ سماجی، معاشی اور سیاسی ،ثقافتی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالتیں آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہیں ،عدالتوں کی یہی اپروچ شہریوں کی آزادی سمیت دیگر بنیادی حقوق کے تحفظ میں معاون ثابت ہوتی ہے ،عدالتیں اسی اپروچ کے ساتھ بنیادی حقوق کو توسیع دیتی ہیں جس میں بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کو صحیح معنوں میں تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے ۔

پیراگراف نمبر 24

سپریم کورٹ کے 9 فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نےان مقدمات کے فیصلوں میں سیاسی جماعت کی تشکیل اور سیاسی جماعت کے رکن کے حقوق کی تشریح کر چکی ہے ،ان فیصلوں میں پارٹی کے پاس کام کرنے کا حق، انتخابات میں حصہ لینے کا حق اور حکومت بنا کر مدت پوری کرنے کا حق شامل ہے ان فیصلوں میں آزادانہ طور پر کسی بھی شخص کو الیکشن میں حصہ لینے کے حق یا بطور پارٹی ممبر شہری کے حق کی بھی تشریح کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں منتخب نمائندوں کے حق حکمرانی اور ووٹ کے حق کی تشریح بھی کی گئی ہے ۔
عدالت نے لکھا ہے کہ مذکورہ سیاسی بنیادی حقوق کا گلدستہ ملک میں متحرک کام کرنے والی جمہوریت اور نمائندہ حکومت کو ظاہر کرتا ہے ان فیصلوں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ عوامی نمائندگی ہی حقیقت میں جمہوریت ہے ، اس لئے آئین کے آرٹیکل 17/2 میں دیئے گئے حقوق کی فراہمی کے لئے ریاست اپنے اختیارات منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتی ہے ۔

پیراگراف نمبر 25

اس پیراگراف میں عدالت نے آرٹیکل 19 کا مکمل متن شامل کرتے ہوئے لکھا ہے کہاظہار رائے کی آزادی کو محفوظ حق تصور کیا جاتا ہے اس لئے کسی سیاسی جماعت کے امیدوار کے لئے ووت دینے کا عمل اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میں آتا ہے ،جب لوگ ووٹ کاسٹ کرتے ہیں تو وہ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں اور وہ یہ فیصلہ دے رہے ہوتے ہیں کہ معاشرے کو کس طرح چلایا جائے گا اور کون چلائے گا اظہار رائے کی یہ شکل انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے الیکٹوریٹ عوامی ترجیحات کے بارے میں اپنا پیغام پہنچا رہے ہوتے ہیں ۔

پیرگراف نمبر 26

عدالت نے کہا ہے کہ جمہوری تناظر میںاظہاررائے کی آزادی کے زمرے میں کسی کمیونٹی یا قوم کی طرف سے سیاسی خواہش کا اظہار شامل ہے ،اظہار رائے کی ازادی اور عوامی نمائندگی لازم و ملزوم ہیں ،منتخب نمائندہ حکومت نہ صرف لوگوں کی مجموعی اظہار رائے کو ظاہر کرتی ہے بلکہ یہ با اثر حکومت بھی تشکیل دیتی ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ سیاسی جماعت کی تشکیل الیکشن میں حصہ لینے اور ووٹ کرنے کے حقوق اسی وجہ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی بنیاد پر سماجی انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔

پیراگراف نمبر 27

عدالت نے آرٹیکل 17 اور 19 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی اور سیاسی عمل میں حصہ لینا جمہوریت کے لئے انتہائی ضروری ہے ،یہ دونوں آرٹیکلز انتخابی عمل کی ساکھ اور سیاسی انصاف کو یقینی بناتے ہوئے ہر شہری کی آواز اور پسند کا تحفظ کرتے ہیں اور انھیں سیاسی عمل میں نمائندگی فراہم کرتے ہیں

پیرگراف نمبر 28

اس پیراگراف میں عدالت نے آرٹیکل 17 اور 19 کا حوالہ دیکر لکھا ہے کہ ہم بعد میں ان دونوں آرٹیکلز میں دیئے گئے حقوق کے حوالے سے سوالات اور ان آرٹیکلز کے اثرات کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا

پیراگراف 29

اس پیراگراف میں عدالت نے آرٹیکل 17 کی روشنی میں الیکشن ایکٹ 2017 کی شقوں کا جائزہ لیا ہے جس میں قومی اسمبلی سینیٹ اور بلدیاتی حکومتوں کے حوالے سے معاملات کا ذکر کیا ہے ۔

پیراگراف نمبر 30
عدالت نے قرار دیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 202 میں الیکشن کمیشن کی سیاسی جماعت رجسٹرڈ کرنے کی ذمہ داری کے بارے میں بتایا گیا ہے جس میں درخواست گزار کی طرف سے درخواست کے ساتھ سیاسی جماعت کے آئین کی کاپی اور فراہم کی گئی معلومات کا سرٹیفکیٹ بینک اکائونٹ اسٹیٹ منٹ اور 2 ہزار ممبران کے دستخط والی فہرست جمع کرانی ضروری ہے ان کے ساتھ ان ممبران کے شناختی کارڈ کی کاپیا ں اور 2 ہزار کا چیک ڈیپاز ٹ الیکشن کمیشن کے حق میں جمع کرانا ضروری ہے ،اگر کسی سیاسی جماعت کو رجسٹریشن سے انکار کیا جاتا ہے تو وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتا ہے ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ایک دفعہ رجسٹرڈ ہو جانے والی جماعت کو ڈی لسٹ نہیں کیا جا سکتا ، الیکشن ایکٹ کی شق 202 کی ذیلی شق 5 کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس کسی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا اختیار الیکشن ایکٹ 2017 آجانے سے پہلے تک تھا ۔
عدالت نے لکھا ہے کہ شق 212 سیاسی جماعتوں کی تحلیل کے معاملات کو ڈیل کرتی ہے

پیراگراف نمبر 31

سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 208 اور 209موجود کیس سے متعلق ہیں ،ان کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے پارٹی کے انتخابات کو ڈیل کیا جاتا ہے شق 208 کے تحت پارٹی کے رہنماؤں کا ایک مقررہ مدت کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ مدت 5 دسال سے زائد نہیں ہو سکتی جب انتخابات ایک بار ہو جائیں تو متعلقہ سیاسی جماعت اپنی مرکزی دفتر کے عہدیداروں کی لسٹ شائع کر کے ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرتی ہے اور ایسی ہی ایک لسٹ الیکشن کمیشن کو بھجوائی جاتی ہے ۔اسی طرح الیکشن ایکٹ کی شق 209 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے بعد 7 دن میں پارٹی سربراہ یا پارٹی کے منتخب نمائندے کا دستخط شدہ خط الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرایا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروائے گئے ہیں اس خط میں مندرجہ ذیل معلومات دی جاتی ہیں

نمبر 1
سابقہ انٹرا پارٹی انتخابات کی تاریخ

نمبر 2

وفاقی ،صوبائی اور قومی سطح پر منتخب ہونے والے عہدیداران کے نام عہدے اور ایڈریس

نمبر 3

انتخابی رزلٹس

نمبر 4
سیاسی جماعت کی طرف سے انتخابات کے نتائج جاری کرنے کا نوٹیفکیشن

عدالت نے لکھا ہے کہ سیاسی جماعت کا خط موصول ہونے کے بعد 7 دن کے اندر الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر سیاسی جماعت کا سرٹیفکیٹ شائع کرنے کا پابند ہے ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ الیکشن ایکٹ شق 208 (5) کے تحت اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے آئین میں دیئے گئے ٹائم فریم کے مطابق یا 5 سال کے عرصہ کے دوران انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرواتی تو الیکشن کمیشن پارٹی کو انتخابات کرانے کے لئے نوٹس جاری کرے گا ، اس کے بعد بھی اگر انتخابات نہیں کرائے جاتے تو الیکشن کمیشن 2 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کر سکتا ہے یہ جرمانہ ایک لاکھ سے کم نہیں ہوگا ۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 209 پارٹی سربراہ کی ہدایت پر کسی مجاذ شخص کی طرف سے معلومات پر مبنی خط جمع نہ کرانے کے اثرات سے متعلق ہے ،
عدالت نے کہا ہے کہ الیکشن پارٹی آئین کے مطابق منعقد کرانے کے حوالے سے اثرات کا ذکر الیکشن ایکٹ کی شق 215 (5) میں دیا گیا ہے ۔

فیصلے کے پیراگراف نمبر 95 میں
کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 4 میں شہریوں کو تحفظ کا حق دیا گیا ہے اور یہ حق ہر اس شہری کو بھی حاصل ہے جو وقتی طور پر پاکستان میں موجود ہے اس کے ساتھ بھی قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا اس آئینی حق کی ہر شہری کو فراہمی پاکستان کے حکام کی ذمہ داری ہے ،ہماری رائے میں آئینی حق اوراس کی فراہمی حکام کی آئینی ذمہ داری ہے ، ملک کے حکام کسی بھی غیر قانونی اقدام سے ملک کے کسی شہری کو اس کے حق سے محروم نہیں کر سکتے ،اگر کوئی شہری حکام کے غیر قانونی عمل یا اقدام سے اپنے کسی بھی حق سے محروم ہوتا ہے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اس حق کو بحال کیا جائے یا اس کا بالکل اسی طرح مداوا کیا جائے جس طرح اس کا حق بنتا ہے ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ ریٹرننگ افسران اور کمیشن کے غیر قانونی اقدامات اور کوتاہیاں پی ٹی آئی کے لئے نقصان کا باعث بنی۔

پیرا گراف نمبر 96

سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ اس کیس میں ریٹرننگ افسران اور کمیشن کے غیر قانونی اقدامات اور کوتاہیوں کی وجہ سے تحریک انصاف ، اس کے امیدواروں اور پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والوں کو متعدد نقصانات پہنچے

نمبر 1

الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کے حکم میں بڑی کوتاہی یہ کی کہ کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج مسترد کرنے اور انتخابی نشان دینے سے انکارکیا لیکن پی ٹی آئی کو ایک رجسٹرڈ اور فنکشنل پارٹی قرار دیا ۔

نمبر 2

الیکشن کمیشن نے 13 جنوری 2024 کے حکم میں کوتاہی کرتے ہوئے واضح کیا کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ اور فنکشنل سیاسی جماعت ہے لیکن اس کو انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے نامزد کئے گئے امیدوار پی ٹی آئی کے امیدوار تسلیم اور لکھے جائیں گے جنھیں الیکشن عمل میں آزاد امیدوار کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا

نمبر 3

ریٹرننگ افسران کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی کے امیدواروں کا سٹیٹس آزاد امیدوار کے طور پر لکھنا غلط تھا

نمبر 4

پی ٹی آئی کے امیدوار سلمان اکرم راجہ کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ دیا اور ان کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں

نمبر 5

پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں کو الیکشن کمیشن نے غلط طور پر آزاد امیدوار ظاہر کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ کی تحت 98 کے تحت نوٹیفکیشن جاری کیا

نمبر 6

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے کچھ کامیاب امیدواروں کے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کرنے کے عمل کو قبول کر کے غلط فیصلہ کیا باوجود اس کے کہ سنی اتحاد کونسل ایسی سیاسی جماعت نہیں تھی کہ جس کو کامیاب آزاد امیدوار جوائن کر سکتا۔

عدالت نے لکھا ہے کہ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن نے غیر قانونی رول بنایا الیکشن رولز 94 میں ترمیم کر کے سیاسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا اس کے باوجود کہ اس جماعت نے انتخابی نشستیں جیتی اسے نشستیں جیتنے کے باوجود مخصوص نشستیں الاٹ نہ کر کے کنفیوژن پیدا کی گئی اور اس طرح پی ٹی آئی ،اس کے امیدواروں اور الیکٹوریٹ کو نقصان پہنچایا گیا ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ انتہائی ادب کے ساتھ آبزرو کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے 13 جنوری 2024 کو اس عدالت نے فیصلہ اس روز دیا جس کے اگلے دن ہی امیدواروں نے پارٹی ٹکٹس جمع کرانے تھے اور انھیں الیکشن پروگرام کے مطابق انتخابی نشانات جاری کئے جانے تھے اور عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح نہیں کیا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن کیس کے فیصلے کا پی ٹی آئی اور اس کے امیدواروں کے انتخابی سٹیٹس پر کوئی اثر نہیں ہوگا ۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں بھی معاملے کو کنفیوژ کرنے اور پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا

عدالت نے فیصلے میں بتایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 218/3 میں الیکشن کمیشن کے اختیارات واضح ہیں جبکہ آئین کے آرٹیکل 187/1 میں سپریم کورٹ کے اختیارات واضح ہیں ۔

پیرا گراف نمبر 97

سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ حکومتی فنکشنریز، الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران کے غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے پی ٹی آئی ،تحریک انصاف کے امیدوار وں اور الیکٹوریٹ کو متاثر نہیں ہونا چاہیے ،مذکورہ حکام کے غیر قانونی اقدامات اور کوتاہیوں سے انھیں (پی ٹی آئی امیدواران اور عوام ) کو ان کے مخصوص نشستوں کے حوالے سے نمائندگی کے آئینی حق سے محروم کیا گیا ہے ،انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے حقوق کو اسی پوزیشن میں بحال کیا جائے جس پوزیشن میں یہ ہونے چاہییں تھے ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ آئین اور الیکشن ایکٹ کی ایسی کوئی مخصوص شق نہیں ہے جو اس طرح کی صورتحال کو ٹھیک کرتی ہو اور کسی غلط اقدام کو درست کرتی ہو

پیرا گراف نمبر 98

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ مقننہ کسی رائج قانون کے اطلاق کے دوران اٹھنے والے مسائل یا معاملات کے حوالے سے قانون سازی کر کے غیر متوقع معاملات یا مسائل کا احاطہ نہیں کر سکتی ،ایسی صورتحال میں حکومت غیر متوقع معاملات یا مسائل سے نمٹنے کے لئے ایسی شق لا سکتی ہے جس سے مخصوص معاملے کو حل کیا جا سکے ۔الیکشن ایکٹ میں الیکشن کمیشن کو ایکٹ کی شق 4 اور 8 کے ذریعے عام اختیار دیا گیا ہے ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 218 (3)کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس اسی نوعیت کے اختیارات حاصل ہیں جو الیکشن ایکٹ کی شق 4 اور 8 کے تحت دیئے گئے ہیں، یہ دونوں اختیارات الیکشن کمیشن ذوالفقار بھٹی کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے فیصلے کی روشنی میں استعمال کئے جاسکتے ہیں ،اس فیصلے میں کہا گیا ہے