اسلام آباد(محمداکرم عابد)سانحہ ڈی چوک کے تناظر میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری سخت کشیدگی بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی مزید مقدمات میں گرفتاریوں اور بشری بی بی کے ساتھ حکومتی طرزعمل کے ضمن میں پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں کے جاری اجلاسوں میں اپوزیشن کی بڑی جماعت کے شدیداحتجاج ہنگامہ آرائی کی سیاسی پارلیمانی حلقوں میں توقع کی جارہی تھی ۔

اجلاس تو جاری ہیں سانحہ ڈی چوک سے متعلقہ فریق کی توجہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہٹھتی نظر آرہی ۔ پہلے روز قومی اسمبلی کے ایوان میں پی ٹی آئی ارکان کی نشستوں پر گولی کیوں چلی جیسے غیر معمولی نعروں پر پلے کارڈز موجود تھے دوسرے روز یہ بھی غائب ہوگئے اور سینیٹ میں تواس قسم کا احتجاج نظر نہ آیا۔ احتجاج کی شدت کم ہونے پر حیرت وتعجب کا اظہار کیا جارہا ہے اسے حکومت کے لئے اپوزیشن کی جانب سے تازہ ہوا کا جھونکا بھی قراردیا جارہا ہے ۔

پارلیمینٹ میں پی ٹی آئی حکومت کے درمیان ممکنہ مذکرات کی بازگشت سنائی دی ۔ غلام گردشوں میں بعض ارکان کی جانب سے یہ تبصرہ سنا کہ اداروں حکومت کے لئے پی ٹی آئی کی طرف سے سرپرائز یہ ہے کہ وہ فارم47والوں سے مذاکرات کے لئے آمادہ ہوگئی یادرہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کا یہ دیرینہ موقف رہا کہ حکومت نہیں اصل بااختیارقوتوں سے سے بات چیت ہوگی اور وہ اپنا نمائندہ مقررکرے۔

پارلیمان کے لاجز میں یہ بھی تبصرہ آرائی ہورہی تھی کہ بانی پی ٹی آئی کو پارلیمان کی یاد ستانے لگی ہے لیکن اس کی جماعت کے ارکان بھی احتجاج کے حوالے سے دفاعی پوزیشن پر جاتے نظر آرہے ہیں اور احتجاج دم توڑنے کی نوبت بھی آسکتی ہے یہ سخت تبصرہ بھی سننے کو ملا کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتاندرون خانہمذاکرات کے لئے منت سماجت کرنے والی پوزیشن پر آگئی ہے ۔مذکرات کے معاملے پر اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر سمیت سرکردہ ارکان پارلیمان تذبزب کا شکار نظر آئے ۔ ایک طر مذاکرت شروع ہونے کا دعوی کیا جاتا دوسری طر ف سے پذیرائی نہ ملنے پر لمحوں میں تردید سامنے آجاتی اور پی ٹی آئی ہر معاملے میں پارلیمان میں گومگو کی کیفیت سے دوچار دکھائی دی ۔

پارلیمانی حلقوں میں ان نہتے معصوم پی ٹی آئی کارکنان جو ڈی چوک احتجاج میں جاں بحق ہوئے ان کے حوالے سے افسوس کا اظہار ضرور کیا جارہا ہے جب کہ زخمی کارکنان اور لاپتہ کارکنوں کے حوالے سے غلام گردشوں میں تشویش کی بازگشت تھی ۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سانحہ ڈی چوک کے حوالے سے انصاف ضروری ہے اس معاملے کو ایسے ہی چھوڑدیا گیا تو عوام کے سیاسی جماعتوں پر اعتماد میں کمی واقع ہوگی سیاسی جماعتوں پر بھروسے کو دھچکا لگے گا ۔

سوالات یہ بھی اٹھے مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو دینے کوکیا ہے ۔ کارکنوں کے خون کا حساب ہوگا یہ مذاکرات والے ان معاملات پر پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کریں گے ۔ پارلیمان میں مزاکرات کا شوشہ سانحہ ڈی چوک سے توجہ ہٹھانا بھی ہوسکتا ہے یہ کہنا تھا سخت گیر پی ٹی آئی ارکان کا ۔پارلیمان کا معمول کی کاروائی کے راستے پر سفر نظر آرہا ہے۔کارکنوں پر جو بیتی وہ مسئلہ آنکھوں سے اوجھل کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔پی ٹی آئی نے یہ پینترابھی بدلا ہے کہ فارم47والوں سے بات نہیں ہوگی ۔ اب پارٹی قیادت کے یہ بیانات پارلیمان میں سننے کو ملے کہ حکومت مذاکراتی ٹیم مقرر کرے ۔