اسلام آباد (محمداکرم عابد) پارلیمینٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نجی تیل کمپنی کی 70 ارب روپے کی نادہندگی کے باوجود اس کی نئے نام سے رجسٹریشن پر آئندہ اجلاس میں قومی احتساب بیورو،ایف آئی اے ،ایس ای سی پی،اوگرا کے سربراہان کو طلب کرلیا ۔
یاد رہے کہ بیکوکے مالکان کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے تھے اس کے باجودریکوری نہ ہوسکی ۔
پی اے سی نے 350ارب روپے گیس انفراسٹرکچرترقیاتی فنڈکے عدم استعمال پر اظہار تشویش کرتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کرنے اور ایک ماہ میں پلان پیش کرنے کی ہدایت کی ہے یہ فنڈزپاک ایران پائپ گیس ،تاپی اور دیگر منصوبوں سے متعلق ہے 2016سے شہریوں سے وصولی شروع کردی گئی لیکن کسی منصوبے پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی سپریم کورٹ نے قانون کالعدم قراردے کر وصولی 2020میں روک دی تھی۔
کمیٹی ارکان نے کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ طلب کر کے مسلسل آئین شکنی کی جارہی ہے۔اجلاس میں موجود وزارت قانون نیب ایف آئی اے کسی کو نہ مقدمات نہ معاملات کا پتہ ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنیداکبرخان کی صدارت میں ہوا۔ جس میں وزارت پٹرولیم کے حسابات پر3178ارب سے زائد کے آڈٹ پیراز کی جانچ پڑتال کی گئی ۔
کمیٹی نے گیس سرچارج کی مدمیں کھادکمپنیوں سے 31ارب روپے کے واجبات کی عدم وصولی کا نوٹس لیتے ہوئے ایک ماہ میں ریکوری کی رپورٹ طلب کرلی۔
رکن کمیٹی سید نویدقمر نے کہا سستی گیس کا سارا فائدہ فوجی ۔اینگرو،فاطمہ کمپنیوں کو ہوا مگر صوبوں کے عوام گیس سرچارج کے حوالے سے اپنے حقوق سے محروم ہیں یہ کھاد والے کارخانے انتہائی طاقتور لگتے ہیں ۔ وفاق کی بھی وصولی کے لئے عدم دلچسپی نمایا ں اتنے ادارے موجود ہیں کوئی نوٹس نہیں لیتا ۔
ارکان نے سوال اٹھایا کہ اربوں کی نادہندہ کمپنیاں نئے نام سے کام شروع کردیتی ہیں ادارے کیا کررہے ہیں؟ ۔فوری طور پر اوگرااور ایس ای سی پی سے بات کی جائے ۔ ایس آئی ایف سی سے ان کیا تعلق وہاں کیسے معاملہ چلاگیا۔
حنا ربانی کھر نے کہ تیل کمپنی نے حکومتی نمائندے کے طور پر یہ لیوئز صارفین سے وصول کی خزانہ میں جمع کروانے کی بجائے لگتا ہے بنکوں میں سود وصول کیا گیا ۔نئے کاروبار میں قومی خزانہ کو نجی کمپنی نے استعمال کیا نادہندہ ہونے کے باوجود پھر سہولت مل گئی نئے نام سے کام شروع کردیا۔
سیکرٹری پٹرولیم نے بتایا کہ نام ای سی ایل میں ڈالے گئے تھے ایف آئی اے آگاہی رکھتی ہے ۔ بہترہے ان سے پوچھا جائے ۔کمیٹی نے زمہ داران کے تعین کی ہدایت کرتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔
کمیٹی نے آڈٹ اعتراضات میں کسی کو سیٹل نہ کیا اور ریکوری کی ہدایت کی ہے ۔
ارکان نے کہا یہ تو ریاستی رٹ کا بھی معاملہ ہے ۔اب کہا جارہا ہے کہ یہ کمپنی ماہانہ اقساط میں رقوم دے گی قومی خزانہ کو پہلے زاتی استعمال میں لاؤ پھر عوامی رقوم کو قسطوں میں ادا کرو۔یقینی تصور کرلیا گیا ہے کہ کوئی مالیاتی نظم وضبط مالیاتی قانون نہیں ہیں ۔
ارکان نے کھاد بنانے والے کارخانوں کو سستی گیس کی فراہمی پر انتہائی سخت ریمارکس دیئے ہیں اور کہا ہے ملک میں مافیازبڑھ رہے ہیں۔وزارتیں عوامی مفادات کے تحفظ میں ناکام نظر آرہی ہیں پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر بھی تو جواب دہ ہے کہ کیوں منسلک ملحقہ اداروں سے سرزنش نہیں کی جاتی۔