اسلام آباد(محمداکرم عابد) اربوں روپے کی سرکاری زمنیوں پر افسران اور کنٹری کلب کی موجیں ،مال مفت دل بے رحم کے مصداق کوئی کرایہ کوئی معاوضہ کی ادائیگی نہ کئے جانے کے حوالے سے معاملات نیب کے حوالے کردیئے گئے اورایک ماہ میں ریکوری کی رپورٹ طلب کرلی گئی ہے

پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا جنید اکبر کی زیر صدارت اجلاس میں ہوا جس میں وزارت صنعت و پیداوار کے آڈٹ اعتراضات 2022-23 کا جائزہ لیا گیا۔

پی اے سی کی جانب سے صنعت و پیداوار کی جانب سے 16 ارب 38 کروڑ کی ضمنی گرانٹس لینے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جب بجٹ بنایا جارہا تھا اس وقت ان اخراجات کو مدنظر کیوں نہیں رکھا گیا۔

دوران اجلاس رکن کمیٹی سید نویدقمرنے کہا کہ آئی ایم ایف کے شور مچانے پر ضمنی گرانٹس بہت کم ہو چکی ہیں، ایک زمانہ تھا جب ضمنی گرانٹس کا پورا سال کھاتا چلتا تھا، شاہدہ اخترعلی نے کہا کہ ہم پی اے سی میں پندرہ پندرہ سال پرانی ضمنی گرانٹس کلیئر کر رہے ہوتے ہیں۔

اہم انکشافات
کمیٹی نے وزارت صنعت و پیداوار کے آڈٹ اعتراضات 2023-24 کابھی جائزہ لیا۔
دوران اجلاس پاکستان اسٹیل ملز اور این ٹی ڈی سی کے درمیان زمین کی لیز کے معاہدے کا معاملہ زیربحث آگیا اور این ٹی ڈی سی کی جانب سے 2 ارب 82 کروڑ روپے ادا نہ کرنے کا انکشاف ہوا حکام نے کہا کہ این ٹی ڈی سی کے زمے یہ رقم لیز منی، سالانہ گراونڈ رینٹ اور رائٹ آف وے کی مد میں واجب الادا ہے،آڈٹ حکام نے مزید کہا کہ واجبات ادا نہ کرنے کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان ہوا، اسٹیل مل کی یہ زمین لکی پاور پلانٹ کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کیلئے دی گئی تھی،

سید نویدقمرنے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز کی زمین بہت قیمتی ہے، یہ کراچی کا ایک پرائم علاقہ ہے، کسی کے باپ کا مال نہیں،بورڈ زمین اتنی سستی بیچنے کا کیسے فیصلہ کر سکتا ہے۔

فریقین کے درمیان تحریری معائدہ نہ ہونے کے باعث پی اے سی نے آڈٹ پیرا نمٹانے سے انکارکرتے ہوئے معاملہ تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کو بھجوا دیا اورایف آئی اے سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کر لی۔دریں اثنا وزارت صنعت و پیداوار کو معاملہ حل کرنے کیلئے 25 دن کی ملہت دے دی گئی ہے۔اس کے بعد کیس ایف آئی اے کو بھجوایا جائے گا۔

بل عدم ادئیگی سے 1 ارب روپے نقصان کا انکشاف
پاکستان اسٹیل ملز کے بجلی بل کی ادائیگی کی مد میں قومی خزانے کو 1 ارب روپے نقصان کا انکشاف کرتے ہوئے آڈٹ حکام نے کہا کہ پاکستان اسٹیل سال 2015 سے بند پڑی ہے،جولائی 2022 سے جون 2022 تک اسٹیل ملز کو مہنگی بجلی سپلائی کی گئی، اسٹیل ملز انتظامیہ نے بجلی کے صنعتی اور کمرشل میٹر کو رہائشی میٹر میں تبدیل نہیں کیا۔ سیکرٹری صنعت و پیداوارنے کہا کہ گیس سپلائی، سبسڈی اور تنخواہوں کی مد میں بچت کی گئی ہے، ہر پندرہ دن بعد پیش رفت رپورٹ طلب کر لی۔

 75 کروڑ مالیتی زمین پر قبضے کا انکشاف

اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز کی 75 کروڑ روپے مالیت کی زمین پر قبضے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق گلشن حدید کالونی کے 176 پلاٹس پر تجاوزات قائم کی گئیں، اسٹیل ملز انتظامیہ کی غفلت اور نااہلی، زمین کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی، 54 ایکٹر اراضی بلڈرز اور چار دیگر افراد کو تیس سالہ لیز پر دی گئی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ چار افراد نے اسٹیل ملز کی 35 ایکڑ اراضی پر قبضہ کر لیا۔ان میں سعید اللہ،سہیل ملک ،شہزاد علی اور منظور حسین شامل ہیں ۔ان افراد کو 200 پلاٹ الاٹ بھی کیئے جا چکے ہیں،

آڈٹ حکام نے مزید کہا کہ پلاٹ اسٹیل ملز ہاوسنگ اسکیم گلشن حدید فیز تھری کو الاٹ کیئے گئے، اسٹیل ملز کی اراضی انجینرنگ یونیورسٹیز کے قیام کیلئے ایچ ای سی کو بھی دی گئی۔بعد میں یہ منصوبہ ترک کردیا گیا۔پی اے سی نے معاملہ تحقیقات کیلئے نیب کو بھجوا دیا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں اسٹیل ملز کی 54 ایکڑ زمین 3 یونیورسٹیوں کو دینے کے بعد کینسل کرکے 4 افراد کو دینے کا انکشاف ہوا تو چیئرمین جنید اکبرنےمعاملہ نیب کو بھجوانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا نیب کو ایسے معاملات نظر نہیں آتے یا صرف سیاستدان ہی نظر آتے ہیں، جس پر نیب حکام نے کہا کہ جی نیب کو اس معاملے کا کوئی علم نہیں ہے.

سیدنویدقمرنے کہا کہ غزہ کی طرح یہاں بھی زمینوں پر قبضہ نہ کیا جائے، اسٹیل ملز کی اراضی پر قبضے پر قبضہ ہورہا ہے، اسٹیل ملز انتظامیہ ایس آئی ایف سی کے پاس کیا لینے گئی، ایس آئی ایف سی کا کام صرف سہولت فراہم کرنا ہے۔

عربین سی کنٹری کلب سے رقم کی عدم وصولی کانوٹس

عربین سی کنٹری کلب سے 200ایکڑزمین کی لیز کی رقم وصول نہ کرنے پرسخت نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین پی اے سی نے کہا ہم کاروائی شروع نہ کرتے تو کیا اربوں رقوم پھنسی رہتیں۔معاہدے کی تجدید سے قبل رینٹ وصولی ضروری تھی ایسا نہ ہوا اور معاملہ پش پشت ڈال دیا گیا ایک ماہ میں ریکوری کی رپورٹ پیش کی جائے ۔

ضمنی گرانٹس

حکام نے کہا کہ ضمنی گرانٹس یوٹیلٹی اسٹورز، رمضان پیکیج اور ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کیلئے لی گئی تھیں،۔اجلاس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے آڈٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ سی ایس ایس اور ایف پی ایس سی کے امتحانات میں دو کروڑ 60 لاکھ روپے کی کیش ادائیگی کی گئی.

اجلاس میں آڈٹ اعتراض سامنے آیا ہے کہ امتحانات کیلئے اسکولوں میں انٹر پاس عملہ تعینات کیا گیا، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبران کی تقرری خلاف ضابطہ بھی کی گئی، پی اے سی نے پابندی لگا دی ہے کہ آئندہ کیش ادائیگی نہ کی جائے ، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکرٹری ایف پی ایس سی ممبران کی تقرری میں ضوابط کو یقینی بنائیں.

یوٹیلٹی سٹورز
ارکان نے یوٹیلٹی سٹورز کی حالت زار اور ملازمین کو نکالنے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ پہلے یوٹیلیٹی سٹورز والے کتنا پیسہ حکومت کو دیتے تھے، اب حکومت یوٹیلیٹی سٹورز کو کتنے پیسے دیتی ہے، یوٹیلٹی اسٹورز ملازمین کو کیوں نکالا جا رہا ہے،چیئرمین نے کہا کہ ہم ذیلی کمیٹی بنا رہے ہیں یوٹیلیٹی سٹورز کا معاملہ اس میں دیکھ لیں گے۔

مدت ملازمت میں خلاف ضابطہ توسیع کانوٹس

انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو افسر کی مدت ملازمت میں توسیع خلاف ضابطہ قراردیتے ہوئے آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سی ای او کو تنخواہ اور الاونسز کی مد میں 95 لاکھ 60 روپے کی ادائیگی کی گئی، رضا عباس شاہ کو 2019 میں دو سال کی مدت کیلئے تعینات کیا گیا، اس کے بعد 2021 میں وزیراعظم کی منظوری کے بغیر دو سال کی توسیع کر دی گئی۔

پی اے سی نے خلاف ضابطہ مدت میں توسیع دینے پر اظہار برہمی کیا ہے تاہم حکام نے کہا کہ یہ معاملہ کابینہ میں پیش کیا گیا تھا جہاں اس کی منظوری دی گئی، اجلاس میں انتباہ کیا گیا کہ دو سال کے بعد منظوری لینے کا جواز نہیں، پی اے سی نے متعلقہ حکام کیخلاف کاروائی کی سفارش کرتے ہوئے معاملہ کلیئر کرنے سے انکارکردیا کمیٹی نے بے ضابطگی کی زمہ داری کا تعین کرنے کی ہدایت کردی..