اسلام آباد(محمداکرم عابد) پارلیمینٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی آے سی) کے اجلاس میں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں میں جعلی و ناجائزاووربلنگ کے زمہ داران کے خلاف نمائشی کاروائی کا انکشاف ہوا ہے۔
پی اے سی کااجلاس چیئرمین جنیداکبر کی صدارت میں منعقد ہوا۔ کمیٹی کی جانب سے پاور ڈویژن کو دھابیجی اسپیشل اکنامک زون منصوبے کی ماہانہ پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے ۔ اجلاس میں سرمایہ کاری بورڈ اورپاور ڈویژن کی 24-2023 کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیاگیا۔پاور ڈویژن کے 8727 ارب روپے سے زائد کے حسابات پر آڈٹ پیرازبنے ہیں ۔
سرمایہ کاری بورڈ کے سال 24-2023 کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیتے ہوئے کمیٹی کوبتایا گیا کہ سرمایہ کاری بورڈ نے 55 لاکھ سے زائد رقم دو منصوبوں کے لئے ادا کی۔ متعلقہ حکام نے کہا کہ کرونا وبا کی وجہ سے منصوبوں کو ایمرجنسی کی بنیاد پر مکمل کیا گیا۔حالات کی وجہ سے پیپرا کے ایمرجنسی رولز کو لاگو کیا گیا۔
ارکان نے کہا کہ کانفرنس کرنے کے لئے ایمرجنسی رولز کے نفاذ کا کیا تعلق ہے؟ سید نوید قمرنے کہا کہ یہ ایمرجنسی نہیں تھی، یہ کھلم کھلا قواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔ کمیٹی نے سرمایہ کاری بورڈ سے 15 دنوں میں زمہ داری کا تعین کرنے کی ہدایت کر دی۔کانفرنس کے انعقاد کے لئے پیپرا قواعد کے برخلاف سرمایہ کاری بورڈ کی جانب سے نجی ہوٹیلز کو 83 لاکھ سے زائد ادائیگیوں کا پیرا زیر غورآیا۔مہمانوں کی سیکیورٹی کے پیش نظر مسابقت کے بغیر ادائیگیاں کی گئیں۔ سرمایہ کاری بورڈ کو آئندہ کانفرنس کے انعقاد سے قبل پیپرا قواعد پر عملدرآمد کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
پاور ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ 24-2023 کا جائزہ لیا گیا ۔ارکان ڈیسکوزکی ناقص کارکردگی پر برس پڑے۔ دھابیجی اسپیشل اکنامک زون منصوبے کے فنڈز لیپس ہونے پر اظہار تشویش کیا گیا ہے ۔ارکان نے کہا کہ اتنا اہم منصوبہ تھا، رائٹ آف وے پہلے کیوں نہیں لیا گیا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق 2023 میں 7 ارب 95 کروڑ کا ترقیاتی فنڈ لے کر بعد ازاں 9 ارب کا ضمنی بجٹ بھی لیا گیا۔
حکام نے کہاکہ دھابیجی اسپیشل اکنامک زون کیلئے رائٹ آف وے تاحال نہیں ملا۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ پشاور، خیبر اور بنوں سرکل میں اے بی سی کیبل کے منصوبے کے فنڈز بھی لیپس ہوئے۔ مفت میں افسران بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں۔آئندہ بچ جانے والے فنڈز بروقت فنانس ڈویژن کو سرنڈر ہونے چاہئیں۔: ایک طرف حکام دعوی کرتے ہیں کہ فنڈز کی کمی ہے دوسری طرف اربوں روپے عدم استعمال پر واپس کیے جاتے ہیں،
حنا ربانی کھر نے کہا کہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی مالی امداد پر چلنے والے سب سے سست رفتار منصوبے پاور ڈویڑن کے ہیں۔ ارکان نے پاور ڈویڑن کا تھرڈ پارٹی آڈٹ اور ڈیسکوزبورڈ ارکان کو طلب کرنے کا مطالبہ کردیا ہے ۔پاور ڈویژنے ڈی اے سیز کے اجلاس بھی نہیں کئے۔اس معاملے پر ڈی اے سی نہیں ہوئی تو کس پر کی جائے گی؟
حکام نے کہا کہ نان ریکوری کے سب سے زیادہ کیسز کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ہیں۔ ارکان کا کہنا تھا کہ پورے ملک کی معیشت کو داؤ پر لگایا گیا ہے۔ واجبات کے حساب سے ہمیں 300 بڑے رننگ ڈیفالٹرز کی فہرست فراہم کی جائے۔ حکام نے بتایا کہ کوئٹہ میں 603 ارب روپے کے ڈیفالٹرز کی تعداد 2428 لوگ ہیں۔
پاور ڈویژن کی 24-2023 کی آڈٹ رپورٹ میں 8789 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی آڈٹ رپورٹ میں کی گئی اور1400 ارب روپے کی ریکوری کی ہدایت کی گئی تھی، 9 ارب روپے ریکور کیے گئے۔
آڈٹ حکام نے کہا کہ نو ڈسکوز کے 14 ہزار 70 ڈفالٹرز سے 877 ارب 59 کروڑ ریکور نہیں کروائے گئے۔ سیکرٹری کے مطابق ڈفالٹرز سے 162 ارب روپے ریکور کر لیے گئے ہیں۔ کیسکو کے ڈفالٹرز نے 603 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ کیسکو کے علاقہ میں 27 ہزار سے زائد ٹیوب ویلز ہیں جو بل ادا نہیں کرتے۔ بلوچستان حکومت سے اس معاملہ پر بات چیت چل رہی ہے، ایک سال میں معاملہ حل ہو جائے گا۔ اور بلوچستان کے ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
پی اے سی نے ڈسکوز کے رننگ ڈفالٹرز کی فہرست طلب کر لی۔افسران کے حوالے سے پرفارمنس آڈٹ ہوگا۔سربراہ پی اے سی نے کہاکہ جس علاقے میں ریکوری نہ ہو وہاں کی تقسیم کار کمپنی کے سی ای او کی مراعات ختم کی جائیں۔ کمیٹی نے دو سال سے صفر ریکوری کرنے والے ڈسکو کے سی ای او کو طلب کر لیا۔
جنیداکبرخان نے کہا کہ سارے خیبرپختونخوا میں پیسہ لینے کے باوجود ایک کھمبا بھی نہیں لگایا جا سکا۔ سید حسین طارق نے کہا کہ بڑے بڑے مل مالکان واجبات نہیں دے رہے۔حکام نے بتایا کہ بجلی پر محصولات کم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ پی اے سی نے ہدایت کی ہے کہ اووربلنگز کے حوالے سے بتایا جائے کہ پاور ڈویژن کے کتنے افسران کے خلاف ایکشن لیا گیا۔ پاور ڈویڑن سے ڈسکوز کی ریکوری کی ماہانہ رپورٹ طلب کر لی گئی ہے ۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وصولیوں کے موجودہ طریقہ کار پر شدید سوالات اٹھا دئیے۔ خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ ڈسکوز کے پاس ریکوری کے موجودہ طریقہ کار کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔پی اے سی نے افسران کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔
پاور ڈویژن کی جانب سے الیکٹرک سامان اور ایریا کی 501 ارب سے زائد مالیت کی نان ریکوری کے آڈٹ اعتراض پر بریفنگ کے دوران اس معاملے پر آڈیٹر جنرل کی جانب سے ریکوری کے لئے پاور ڈویژن کو 118 خط لکھے جانے کا انکشاف ہوا۔ہم نے پاور ڈویڑن کو ریکوری کے لئے 118 خط لکھے۔
ارکان نے رائے دی کہ ڈیفالٹر حکومتی اداروں سے ریفارمز کا عمل کیوں نہیں شروع کیا جاتا؟ گردشی قرض کو پورا کرنے کے لئے حکومت سرکاری اداروں کے واجبات ادا کر رہی ہے۔ ڈسکوز کے افسران کی جانب سے مفت بجلی حاصل کرنے کا معاملہ اٹھ گیا ارکان نے کہا کہ تمام ڈسکوز اپنے آپ کو کتنی مفت بجلی دیتے ہیں؟
سیکرٹری کے مطابق وفاقی حکومت نے مفت یونٹس ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ملازمین نے عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔ پی اے سی نے اگلے اجلاس میں ڈسکوز کو دی جانے والی مفت بجلی کے اخراجات کی تفصیل طلب کر لی۔
چھ ڈسکوز کی جانب سے غلط ریڈنگ اور دیگر محکمانہ غلطیوں کے باعث 21 ارب سے زائد رقم کی صارفین کو واپسی کا پیرا زیر غورآیا جب کہ اوور بلنگ میں ملوث ڈسکو اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے ۔
بلال احمد خان نے کہا کہ اوور بلنگ کی غفلت کیا جان بوجھ کر کی گئی؟ ڈسکوز کا مطلب سی ای او نہیں ہوتا، اس کا پورا بورڈ ہوتا ہے، یہاں سب کو ہونا چاہیے۔ پی اے سی کو اس عمل کا سخت نوٹس لینا چاہیے،
کمیٹی رکن حنا ربانی کھرنے کہا کہ پاور سیکٹر میں کرپشن سے ملک تباہ ہورہا ہے، پاوور سیکٹر نے ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے، غریب خاندان تباہ وبرباد کردیئے گئے ۔پاور سیکٹر میں اصلاحات کی ضرورت ہیں، آڈٹ حکام نے کہا کہ میپکو کے اندر 152 افسران غلط ریڈنگ میں ملوث تھے، ان میں سے 101 کو صرف خبردار کیا گیا، کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ۔ ایف آئی اے کی تحقیقات بھی ہوئیں ان معاملات میںکوئی اصلاح نہین ہوئی کیونکہ نمائشی کاروائی سے معاملات نمٹادیئے جاتے ہیں ۔
کمیٹی نے حکام کوہدایت کی کہ معاملہ کو ایک ماہ میں نمٹاتے ہوئے زمہ داران کے خلاف موثر کاروائی کی جائے اورآئندہ اجلاس میں رپورٹ جمع کرائیں جب کہ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ڈسکوز کے اعلی افسران مفت تنخواہیں لے رہے ہیں۔ ایکسئین ایس ای کسی کوکبھی فیلڈ میں نہیں دیکھا ۔ اس حوالے سے بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔