اسلام آباد (رضی طاہر ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران پرحملے کی دھمکی نے عالمی سطح پر شدید تنازع کو جنم دیا ہے جس کے ردعمل میں ایرانی رہنماؤں نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف کسی بھی احمقانہ عسکری مہم جوئی کے خلاف خبردار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا اور اس سے باہر امریکی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ انٹرویو میںایران کو جوہری معاہدے پر اپنی تشریح کے مطابق عمل نہ کرنے کی صورت میں حملے کی دھمکی دی ہے.
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف اپنی دھمکیوں کو تیز کرتے ہوئے ایک بار پھر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اپنا لی ہے۔
انہوں نے اپنے حالیہ این بی سی انٹرویو میں واضح طور پر اس امکان کا اظہار کیا کہ اگر جوہری معاہدہ نہ ہوا تو وہ ایران پر بمباری کر سکتے ہیں۔یہ جارحانہ بیانیہ نہ صرف خطے کو ایک شدید بحران کے دہانے پر لا سکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ناقابل جواز ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
امریکہ کی ماضی کی جنگوں ویتنام سے لے کر افغانستان اور عراق تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ خودمختار اقوام پر حملے، نتائج کو نظرانداز کرتے ہوئے، اکثر اسٹریٹجک ناکامی اور طویل بحرانوں کا باعث بنتے ہیں۔
سفارتی لحاظ سے، ایسی دھمکیاں امریکہ کو بین الاقوامی برادری میں مزید تنہائی کی طرف لے جا سکتی ہیں۔ امریکہ کے بہت سے یورپی اتحادی، اور یہاں تک کہ بعض علاقائی کھلاڑی بھی، مغربی ایشیا میں ایک اور تنازع میں الجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، اور ایسے اقدامات واشنگٹن کی پالیسیوں کو کمزور کر سکتے ہیں۔ٹرمپ کی دھمکیاں ایران کو جھکانے پر مجبور نہیں کریں گی؛ بلکہ اس کے برعکس، خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔ بالآخر، یہ حکمت عملی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی، کیونکہ ایران بارہا یہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ کسی بھی جارحیت کا فیصلہ کن اور مہنگا جواب دے گا۔