اسلام آباد(محمداکرم عابد) پارلیمینٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل میں خلاف ضابطہ بھرتیوں کی تحقیقات پی اے سی نے ایف آئی اے کے سپردکردیں۔

پارلیمینٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنیداکبرخان کی صدارت میں منعقد ہوا۔جس میں وزارت سائنس وٹیکنالوجی کے حسابات کی جانچ پڑتال ،پاور پلانٹس کو بھاری ادائیگیوں ،پی اے آر سی میں خلاف ضابطہ بھرتیوں کے معاملات کا جائزہ لیا گیا ۔

پی اے آر سی میں مبینہ غیر قانونی بھرتیوں کا معاملہ پرچیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر غلام علی پی اے سی اجلاس میں پیش ہوگئے اور پی اے سی کو تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ پی اے آر سی نے اشتہار 164 آسامیوں کا دیا، 332 بھرتیاں کی گئیں۔ بھرتی کیے گئے افراد کے ڈومیسائل فراہم نہیں کیے گئے۔ بھرتیوں میں کوٹے کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ ۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ صرف پانچ اضلاع سے 29 فیصد بھرتیاں کی گئیں۔

چیئرمین پی اے آر سی نے کہا کہ آسامیاں بڑھانے کی وجہ ضروری تکنیکی و سائینسی اسٹاف کی ضرورت تھی۔نوید قمر نے واضح کیا کہ ضرورت تھی تو قانون کے مطابق بھرتیاں کرتے۔بے شک ایک ہزار بھرتی کر لیتے لیکن اشتہار کے بغیر کیسے ممکن ہے، نوید قمر۔ جنید اکبر کے مطابق بھرتی کیے گئے افراد میں چیئرمین پی اے آر سی اور دیگر کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔بغیر اشتہار اضافی بھرتیاں کرنے پر پی اے سی ممبران چیئرمین پی اے آر سی پر برہم تھے۔پنجاب کے صرف پانچ اضلاع سے 29 فیصد بھرتیاں کر لی گئیں، چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کیا سارے سائنسدان صرف انہی شہروں میں تھے، آپ نے بھرتیاں کرتے ہوئے کوٹہ بھی نظر انداز کر تے ہوئے اپنے سمیت کئی رشتہ دار بھرتی کیے ایسا کیوں ہوا۔

سینیٹرافنان اللہ نے کہا کہ کس پوسٹ کو آپ نے ایڈورٹائز نہیں کیا تو اس پر بھرتی کیسے کر لیا سربراہ پی اے سی نے کہا کہ آپ نے پنجاب کے صرف پانچ اضلاع سے ساری کیسے بھرتیاں کیسے کر لیں،اشتہارات اور ٹیسٹ کی مد میں 9 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، کیش ایوارڈ کے نام پر اڑھائی کروڑ روپے مختلف لوگوں کو دیئے گئے، شیخ وقاص نے استفسارکیا کہ کیا چیئرمین پی اے آر سی کے عہدے کو ہائیکورٹ نے خالی قرار دیا تھا؟ چیئرمین پی اے آر سی نے بتایا کہ خالی قرار دیا تھا لیکن اس فیصلہ کے خلاف میں نے ڈویژن بنچ میں اپیل کی ہے۔

ارکان نے مطالبہ کیا کہ چیئرمین پی اے آر سی کی جانب سے کی گئی بھرتیوں کی ایف آئی اے سے تحقیقات کروائی جائیں۔ پی اے سی نے پی اے آر سی بھرتیوں کا کیس ایف آئی اے کو بھجوا دیا۔

اجلاس کی کاروائی کے دوران پی اے سی نے فروخت کیے جانے والے تمام پرانے پاور پلانٹس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے اسپیشل آڈٹ کی ہدایت بھی کردی ہے۔آڈٹ حکام کا موقف تھا کہ صرف ان پلانٹس کا آڈٹ کر سکتے ہیں جن کی فروخت مکمل ہو چکی ہے۔

سیکرٹری توانائی نے کہا کہ پرانی ٹیکنالوجی کے حامل یہ پلانٹس مہنگی بجلی پیدا کرتے ہیں۔ ان پلانٹس کو فروخت کرنے کا فیصلہ وفاقی کابینہ کا ہے۔ اجلاس میں جمشید دستی نے بتایا کہ میں نے پی اے سی کو خط لکھا ہے۔ میرے علاقے میں جینکو 3 پاور ہاﺅس ہے جسے نیلام کیا جا رہا ہے۔ 13 سو میگاواٹ پاور ہاوس 16 ارب روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔جان بوجھ کر ایک چلتے ہوئے پاور ہاﺅس کو نجی شعبے سے سی ای او لگا کر برباد کیا گیا۔ اسوقت بھی پاور ہاﺅس 8 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت کو اونے پونے داموں پاور ہاﺅس بیچنے سے روکا جائے۔ پی اے سی اس حوالے سے اسپیشل آڈٹ کی ہدایت کرے۔۔

سینیٹر بلال نے کہا کہ کوئٹہ میں بھی ایک پاور پلانٹ اونے پونے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔2020 میں کابینہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ پانچ پاور ہاﺅس فروخت کیے جائیں گے۔حکام کے مطابق اسوقت ملک میں بجلی کی اوور کیپیسٹی ہے۔ ارکان نے اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بجلی نہیں ہے آپ کہ رہے ہیں اوور کیپسٹی ہے۔

چیئرمین پی اے سی کے استفسار پر سیکرٹری کے مطابق لوڈ شیڈنگ لائن لاسز والے علاقوں میں ہو رہی ہے۔ پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پاور پلانٹس کی نجکاری نہیں ہو سکتی۔ پرانے پاور پلانٹس کو کابینہ نے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ گدو اور نندی پور کمبائینڈ سائیکل پاور پلانٹس کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ پرانے پلانٹس کی فروخت کیلئے اسٹیٹ بینک کے ایلیوایٹرز سے قیمت لگوائی گئی ہے۔ ان پرانے پاور پلانٹس کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ان پلانٹس کی صرف مشینری فروخت کی جا رہی ہے، اراضی نہیں۔

اجلاس کے دوران وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ارکان نے آڈٹ نہ کرانے والے محکموں سے متعلق استفسارکیا۔آڈٹ حکام نے کہا کہ مختلف ادارے آڈٹ سے انکار کر رہے ہیں، کمیٹی نے آڈٹ نہ کرانے والے اداروں کی فہرست طلب کرلی۔سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ نسٹ یونیورسٹی کا آڈٹ ہوتا ہے؟ اس کی رپورٹ لے آئیں، افنان اللہ خان
کمیٹی کا آڈٹ نہ کرانے والے اداروں کے سربراہان کو طلب کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے .