1
پنجاب کا 26-2025ء کیلئے5335 ارب روپے کا بجٹ پیش، اپوزیشن کا احتجاج،پنجاب کے وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمان صوبے کا آئندہ مالی سال 26-2025 کے لیے 5335 ارب روپے حجم کا بجٹ پنجاب اسمبلی میں پیش کر رہے ہیں۔پنجاب اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا، اپوزیشن نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر سپیکر اور وزیر خزانہ پر پھینک دیں، اپوزیشن نے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ بھی کیا۔
2
وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف کی سربراہی میں صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں صوبائی کابینہ نے آئندہ مالی سال کے لیے 5335 ارب روپے حجم کے بجٹ کی منظوری دیدی۔کابینہ کے بجٹ اجلاس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ اور پنشن میں 5 فیصد اضافہ کرنے کی منظوری دی گئی، ترقیاتی بجٹ میں 47.2 فیصد اضافہ کرتے ہوئے 1,240 ارب روپے مختص کرنے کی منظوری دی گئی۔کابینہ نے آئندہ مالی سال کے لیے تعلیم کا بجٹ 21.2 فیصد اضافہ کے ساتھ 811.8 ارب روپے ، صحت کا بجٹ 17 فیصد اضافے سے 630.5 ارب روپے رکھنے کی منظوری دی، زراعت کے لیے 10.7 فیصد اضافہ کے ساتھ 129.5 ارب روپے مختص کئے گئے۔پنجاب ریونیو اتھارٹی کا محصولاتی ہدف 13 فیصد بڑھا کر 340 ارب، اربن امویبل پراپرٹی ٹیکس کا ہدف 32.5 ارب روپے مقرر کرنے کی منظوری دی گئی۔کابینہ کو پیش بجٹ میں تخمینی بجٹ سرپلس 740 ارب روپے، ہدف شدہ سبسڈی 72.3 ارب روپے رکھی گئی، پنجاب بورڈ آف ریونیو کا ریونیو ہدف 105 ارب روپے کرنے کی منظوری دی گئی۔ایف بی آر کا ٹارگٹ 14,131 ارب، پنجاب کا حصہ 4,062.2 ارب روپے، پنجاب کا اپنا ریونیو ہدف 828.1 ارب روپے مقرر کیا گیا، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 524.7 ارب، نان ٹیکس آمدن 303.4 ارب روپے رہے گی۔بجٹ میں غیر ملکی فنڈڈ منصوبوں کے لیے 171.7 ارب روپے تجویز کیے گئے، جاری اخراجات کا حجم 2,026.7 ارب روپے رہے گا، سروس ڈیلیوری اخراجات میں 5.8 فیصد کمی کرتے ہوئے 679.8 ارب روپے مختص کیے گئے، بلدیاتی حکومتوں کو 934.2 ارب روپے کی منتقلی کی منظوری دی گئی۔
3
ایف آئی اے گوجرانوالہ زون نے یونان کشتی حادثہ 2023 میں ملوث بدنام زمانہ انسانی سمگلرز مبشر علی اور شفاقت علی کو راولپنڈی سے گرفتار کر لیا۔ترجمان ایف آئی اے کے مطابق دونوں ملزمان کا تعلق کوٹ بیلہ، گجرات سے ہے اور ان کے خلاف مجموعی طور پر 39 مقدمات درج تھے، ملزم مبشر علی پر کمپوزٹ سرکل گجرات میں 22 سے زائد جبکہ گوجرانوالہ میں 7 مقدمات درج تھے، جبکہ شفاقت علی کے خلاف کمپوزٹ سرکل گجرات میں 10 مقدمات زیر تفتیش ہیں۔ڈائریکٹر ایف آئی اے کے مطابق ملزمان نے 39 معصوم شہریوں کو اٹلی ملازمت کا جھانسہ دے کر فی کس 25 لاکھ روپے وصول کئے اور مجموعی طور پر 9 کروڑ 75 لاکھ روپے ہتھیائے، یہ شہری لیبیا کے راستے یورپ جانے کی کوشش میں کشتی حادثے کا شکار ہوئے، جس میں متعدد پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور ہیومن انٹیلیجنس کی مدد سے ان خطرناک سمگلروں کو گرفتار کیا گیا، ان کی گرفتاری کیلئے اس سے قبل پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھی چھاپے مارے گئے تھے، ملزمان کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کیلئے بھی کارروائیاں جاری ہیں۔
4
محکمہ ٹرانسپورٹ پنجاب نے آئندہ مالی سال کے لیے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا جن کے لیے مجموعی طور پر 310 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، یہ منصوبے صوبے بھر میں جدید سفری سہولیات فراہم کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔حکام کے مطابق لاہور میں عالمی معیار کے ییلو لائن منصوبے کے لیے 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، یہ منصوبہ ٹھوکر نیاز بیگ چوک سے ہربنس پورہ تک 24 کلومیٹر کے روٹ پر محیط ہو گا جو کنال کے دونوں اطراف تعمیر کیا جائے گا۔پنجاب کے مختلف اضلاع بشمول لاہور کے لیے 600 الیکٹرک بسوں اور 33 بس ڈپو کی تعمیر کے لیے 60 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے، یہ اقدام صاف ستھری اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ نظام کو فروغ دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔لاہور میں ہی ٹرانسپورٹ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کی تعمیر کے لیے 5 ارب 60 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، منصوبے کے تحت جدید سہولیات سے آراستہ عمارت دو سال میں مکمل کی جائے گی جو شہر بھر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کی نگرانی اور بہتر کارکردگی کو یقینی بنائے گی۔فیصل آباد میں میٹرو بس سروس شروع کرنے کے لیے 120 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، یہ سروس دسمبر 2026 تک مکمل کیے جانے کا ہدف رکھتی ہے جس سے شہریوں کو سستی اور آرام دہ سفر کی سہولت میسر آئے گی۔
5
سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی سے متعلق کیس میں جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں ہے، سول سروس میں ڈیپوٹیشن یا ملازم کو محکمہ میں ضم کرنے کا اصول ہے۔سپریم کورٹ میں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی سے متعلق اہم آئینی کیس کی سماعت کی جہاں درخواست گزار ججز کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے جواب الجواب دلائل دیئے۔بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی وضاحت کا اطلاق صرف ذیلی سیکشن 3 پر ہوتا ہے، سول سروس میں اگر ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ میں تبادلہ ہو تو سنیارٹی متاثر ہوتی ہے، جبکہ عدلیہ میں نہ تو ڈیپوٹیشن کا اصول ہے اور نہ ہی کسی جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول رائج ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سول سروس میں ڈیپوٹیشن یا ملازم کو محکمہ میں ضم کرنے کا اصول ضرور موجود ہے، عدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں۔جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیئے کہ بھارت میں ججز کے تبادلے کے وقت رضامندی نہیں لی جاتی اور سینیارٹی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اگر رضا مندی لی جا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سنیارٹی میں تبدیلی ممکن ہے۔وکیل نے دلائل دیئے کہ اگر سروس سٹرکچر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر کیڈر ایک ہو تو سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، لیکن اگر کیڈر الگ ہو تو سنیارٹی متاثر ہوتی ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہاں معاملہ ججز ٹرانسفرز اور سنیارٹی کا ہے، اس لئے اس پر براہ راست سول سروس رولز کا اطلاق نہیں ہوتا، اگر کسی پر تبادلہ مسلط کیا جائے اور سنیارٹی متاثر ہو تو یہ ناانصافی ہوگی۔بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ابھی دو ہفتے پہلے ہندوستانی ہائی کورٹس میں ججز کے تبادلے ہوئے، دہلی ہائیکورٹ کے سینئر جج کو کرناٹک ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے متفرق درخواست دائر کی۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے استفسار کیا کہ آیا انہوں نے کوئی درخواست دائر کی ہے؟ جس پر امجد پرویز نے کہا کہ انہوں نے 1947 سے 1976 تک ججز ٹرانسفر کی مکمل تاریخ پیش کی ہے، ہم اس کیس میں فریق نہیں تھے بلکہ آرٹیکل 27 اے کے تحت نوٹس جاری ہوا تھا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ 27 اے کا نوٹس فریق بننے کیلئے ہی ہوتا ہے، آپ کو اٹارنی جنرل کے بعد دلائل دینے چاہیے تھے، آپ کو نہیں معلوم کہ 27 اے کا نوٹس کتنا اہم ہوتا ہے؟ جب لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے اپنے کمنٹس جمع کرائے ہیں تو آپ اس کیس میں مرکزی فریق ہیں۔بنچ نے ہدایت کی کہ بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل کو سنا جائے گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ سنیارٹی تقرری کے دن سے شمار ہوگی، انہوں نے استفسار کیا کہ اگر کوئی جج ہائی کورٹ میں تبادلے پر آجائے تو اس کی پہلی سنیارٹی کا کیا ہوگا؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ صدر کو وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہے یا اپنا اختیار آزادانہ استعمال کرنا ہے۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اگر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہے تو کیا صدر کو ذہن استعمال کرنا ہے؟ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں قرار دیا گیا کہ صدر کو اپنا ذہن استعمال کرنا چاہیے۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر جوڈیشل کونسل کسی جج کو برطرف کرنے کی سفارش کرے تو کیا صدر ذہن استعمال کرے گا؟ جس پر صلاح الدین نے جواب دیا کہ سیاسی حکومت کی ایڈوائس پر صدر کو ذہن اپلائی کرنا ہوگا۔اٹارنی جنرل نے ججز کی انتظامی کمیٹی زیربحث لانے پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ ہائی کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ یہ سوال عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا تھا، مگر جواب نہیں ملا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ نکتہ کیس کا حصہ نہیں، اس لئے زیربحث نہیں لایا جا سکتا۔جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ یہ تو ٹرانسفر کے بعد کی پیشرفت ہے، جس سے عدالت کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔سماعت کے اختتام پر بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل مکمل کئے، جس کے بعد لاہور بار کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آگئے اور جواب الجواب شروع کیا۔بعدازاں عدالت نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، لاہور بار کے وکیل حامد خان کل اپنا جواب الجواب مکمل کریں گے اور دیگر درخواست گزاروں کے وکلا کو بھی کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
6
ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس: ملزم کا مزید 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور،ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے قتل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، پولیس نے گرفتار ملزم عمر حیات کو علاقہ مجسٹریٹ محمد حفیظ کی عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے شناخت پریڈ کیلئے ملزم کو جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔پولیس کی جانب سے شناخت پریڈ کا عمل مکمل ہونے پر ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا، پراسیکیوشن نے کہا کہ ملزم کی شناخت ہوگئی ہے۔دوران سماعت پولیس کی جانب سے ملزم کے 7 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، پراسیکیوشن نے مؤقف اپنایا کہ ملزم کو 2 لوگوں نے شناخت کیا ملزم کی والدہ اور پھوپھو نے، ملزم سے زیر استعمال موبائل فون اور گاڑی کی برآمدگی کیلئے ریمانڈ چاہیے۔ملزم نے کہا کہ میں نے موبائل پولیس کو دے دیا ہے، میری درخواست ہے میرا میڈیکل کرایا جائے، جس پر عدالت نے ملزم کے میڈیکل کی ہدایت کر دی، ملزم نے مزید کہا کہ میرا فیملی سے رابطہ نہیں، ان کو پتا ہے کہ وکیل کرنا ہے یا نہیں۔بعدازاں عدالت نے ملزم کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔