اسلام آباد(محمداکرم عابد) پارلیمینٹ نے وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے چندماہ قبل افتتاح کردہ سواچارارب روپے سے زائدلاگت مکمل جناح اسکوائراسلام آباد کے انڈرپاس میں حالیہ بارشوں سے سڑک بیٹھنے داراڑیں پڑنے کی تحقیقات شروع کردیں ۔
تھرڈپارٹی آڈٹ کی سفارش کرتے ہوئے منصوبے کی تمام دستاویزات طلب خصوصی کمیٹی قائم حکومت نے تمام ارکان پارلیمنٹ کوجناح اسکوائر کی دعوت دیتے ہوئے اعلان کیا کہ مبینہ خرابی کی نشاندہی کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
پارلیمینٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جناح اسکوائر اسلام آباد کی گزگاہوں کی سڑک بیٹھنے کا نوٹس لیتے ہوئے پی سی ون کی کلیرنس،نیس پاک کے ڈیزائن کی منظوری پیپرارولز اور ٹینڈرنگ کا ریکارڈ طلب کیا گیا حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ منصوبے پر4ارب20کروڑ کی لاگت آئی ہے نیس پاک نے ڈائزئن کلیرکیا120سن کا ٹائم فریم تھا تاہم منصوبہ72دنوں کی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا ۔
کئی ارکان نے کہا ہے کہ ہماری بھی وہاں سے معمول کی آمدورفت ہوتی ہے جناح اسکوائر اسلام آباد کی گزگاہوں کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ہوتے دیکھا چیئرمین پی اے سی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے رضاکارانہ طور پرپارلیمانی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں شرکت کی۔یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی وزیر متعلقہ ادارے کے دفاع کے لئے پی اے سی میں پیش ہوا اور بتایاکہ پارلیمینٹ نے جناح اسکوائرمنصوبہ میں مبینہ بے قاعدگی کی تحقیقات شروع کردیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا جنید اکبر خان کی زیر صدارت اجلاس منعقدہوا۔حالیہ بارشوں میں جناح اسکوائر انٹرچینج کی گزرگاہوں میں ٹوٹ پھوٹ کا ازخودنوٹس لیا گیا تھا۔
جنیداکبرنے کہا کہ چندماہ قبل ہی یہ انڈر پاس بنا تھا تین مہینے نہیں ہوئے اور وہ گر گیا، ارکان نے کہا کہ سستی شہرت والی کوئی بات نہیں ہے، وقت سے پہلے کام کیا تو تعریف ہونی چاہئے، پراجیکٹ ڈیزائن انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کا تھا، جتنے پراجیکٹ ہم نے بنائے ہیں کمیٹی ان کا دورہ کرے۔ممبر انجیئرنگ نے کہا کہ گیس والوں نے بعد میں توڑ پھوڑ شروع کردی معمولی مینٹنس کی گئی ہے۔ارکان نے کہا کہ کیا پہلے کلیرنس نہ لی گئی تھی ،بے قاعدگی چھپانے کے لئے ناقص تعمیرات کا ملبہ گیس بجلی پانی والے محکموں پر گرایا جاتا ہے ۔سرٹیفیکشن کیسے ہوئی ۔اگر مرمت کی ضرورت دوبارہ پڑی تو اس کا مطلب ہے اس میں گڑ بڑ تھی ۔چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ ٹینڈر میں پیپرا رولز فالو ہوئے یا نہیں ریکارڈ پیش کیا جائے۔
اپوزیشن لیڈر عمرایوب خان نے مطالبہ کیا کہ سارے منصوبے کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ہونا چاہئے، شہرت کے لئے ایک پراجیکٹ کو انڈر مائن کیا گیا، ایس این جی پی ایل کے لئے وہ پائپ لائن پہلے کیوں نہیں ڈالی گئی۔شاہدہ اختر علی نے کہا کہ آڈیٹرجنرل سے پہلے رہنمائی لینی چاہیے تھی یہ پراجیکٹ عوامی ڈیمانڈ تھی اور وقت کی بھی ضرورت تھی، بعض ارکان نے کہا کہ میں اسلام آباد کلب گیا ،متعلقہ مقام پر ہوٹل کے سامنے مینٹینس کا کام ہو رہا تھا اس دوران سی ڈی اے حکام کی جانب سے مینٹینس کے بعد خرابی کی دوری اور منصوبے کی مکمل فعالیت کی وڈیوزدکھائی ۔
سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ منصوبے کی یہ وڈیوزاصل ہیں مصنوعی انٹیلی جنس سے نہیں بنائی گئی۔منصوبہ جلدی مکمل کرنے پر اس کی تعریف کرنی چاہئے، آج یہ منصوبہ مکمل طور پر فعال ہے اور بہت اچھا منصوبہ ہے، پشاور میں بہت بڑے بڑے پراجیکٹ آج تک مکمل نہیں ہوئے، شازیہ مری نے کہا کہ منصوبہ 72 دنوں میں بن گیا اچھی بات ہے،چھوٹے چھوٹے مسائل کیوں پیدا ہوئے ہیں۔سید امین الحق نے کہا کہ بظاہر کوئی گھمبیر صورتحال کہیں نظر نہیں آئی، ہم سیاسی معاملات میں نہیں جانا چاہئے، اچھی بات کی تعریف کرنی چاہئے۔ڈیڑھ سال سے کراچی فلائی اوور نہ بن سکاہے۔
طلال چوہدری نے کہا کہ کسی اسٹرکچر میں کوئی مسئلہ نہیں بنا،ایس این جی پی ایل کی لیکیج وجہ بنی ، اس پراجیکٹ یا اسپیڈ کو کوئی میچ نہیں کر سکتا تو تعریف نہیں کرسکتا تو طعنہ نہ بنائے، پشاور کے منصوبے نامکمل پڑے ہیں۔
ثناءاللہ خان مستی خیل نے اس پر برا مناتے ہوئے کہاکہ منسٹر کا یہاں بیٹھنے کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے، ہم نے بھائی کا احترام کیا ہے، یہاں منسٹرز کا کوئی کام نہیں بیوروکریٹس کا کام ہے، اس وقت تو ہم اجازت دے رہے ہیں اگلی دفعہ اجازت نہیں دیں گے،متعلقہ وزارت کا اکاونٹنگ افسر آسکتا ہے۔چیئرمین سی ڈی اے کہا ں ہیں ،پیغام آیا کہ وہ وزیراعظم آفس میں ہیں بس پہنچنے والے ہیں تاہم اجلاس میں وہ نہ آسکے۔
جنیداکبر نے اعلان کیا کہ جناح اسکوئرمنصوبے میں مبینہ بے قاعدگیوں کی سب کمیٹی تحقیقات مکمل کرے گی۔ سارا ریکارڈ وہاں پیش کیا جائے ۔اجلاس کی کاروائی کے دوران اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور بین الصوبائی وزارت کے حسابات کی جان پڑتال کی گئی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سرکاری افسران کے اثاثوں کوظاہر نہ کرنے کا دفاع کیا اور کہا کہ افسران کی سیفٹی اور سیکورٹی کا مسئلہ ہے اس پر ان کی سینیٹر افنان اللہ اور شازیہ مری سے نوک جھونک ہوگئی
سیکرٹری نے کہا کہ ارکان پارلیمینٹ کے لئے بھی سرکاری افسران کی طرزپر قانون بنالیا جائے یعنی وہ بھی ظاہر نہ کریں سرکاری افسران تمام تفصیلات ایف بی آر کو دینے کے پابند ہیں۔افنان اللہ نے کہا کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ردوبدل کاکیا فائدہ اگر اثاثوں کو عوام کو سامنے نہیں لایا جاتا کیا ہماری سیکورٹی اور سیفٹی کامسئلہ نہ ہے ،شازیہ مری نے کہا وہ مساوی قانون کے لئے ورکنگ پیپرتیار کررہی ہیں یااعلی افسران ہماری کشتی پر یا ہم ان کی کشتی پر چلے جاتے ہیں۔سیکرٹری نے کہ سول سرونٹ جیساقانون بنالیں ،میں نے تو شروع میں تجویز دے دی تھی۔جبکہ کوہستان میں 40 ارب روپے کا مبینہ اسکینڈل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پہنچ گیا۔
چیئرمین کمیٹی جنید اکبر خان نے معاملہ کمیٹی میں اٹھایا۔اور کہا کہ ہم آڈٹ کا کہتے ہیں تو آپ آڈٹ پر راضی نہیں ہوتے،اے جی کے پی کے پر الزام ہے، آپ نے اس کو کس طرح اسلام آباد ٹرانسفر کیا۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ چیک بک مس یوز ہوا ہے، تمام ملازمین فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ہیں ، تین لوگوں کی چین تھی انہوں نے فراڈ کیا ہے تینوں کو گرفتار کیا گیا ہے، اس کی انکوائری نیب کر رہا ہے،تین دفعہ فنانس ڈیپارٹمنٹ کو لکھ چکے ہیں کہ آپ کے بندے ہیں ایکشن لیں، جہنوں نے چیک بک مس یوز کیا کی انہوں نے ایک قدم بھی ان کے خلاف ڈسپلنری ایکشن نہیں لیا، آڈٹ حکام کمیٹی نے معاملے سے تفصیلات طلب کرلیں گن اینڈ کنٹری کلب کی ممبرشپ فیس میں کرپشن سے متعلق آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا گیا بھاری رقوم ہڑپ کرلی گئی بس افسر کو معطل کیا گیا ریکوری نہ ہوسکی ۔ گن اینڈ کنٹری کلب نے وصول شدہ ممبرشپ فیس کا حساب کتاب صحیح طریقے سے نہیں رکھا،
آڈٹ حکام نے کہا کہ افسران دو دفعہ ڈسمس ہوئے ہیں، سیکرٹری آئی پی سی نے کہا کبھی آڈٹ ہی نہیں ہوا تھا، دو سال پہلے آڈٹ ہونا شروع ہوا ہے۔ ارکان نے کہا کہ کلب میں نائن ایم ایم کے علاوہ کوئی ہتھیار ہی استعمال نہیں کرسکتے، جن لوگوں نے فراڈ کیا ہے وہی سٹے آرڈرلے آئے ہیں، ان کے خلاف ایف آئی آر کرائیں، یہ تو لوگوں کی فیس کھا گئے، یہ فراڈ ہے،، آڈیٹر جنرل نے کہا کہ لوگوں سے پیسے لئے گئے اور جمع نہیں کرائے گئے،8 جولائی سے گن اینڈ کنٹری کا اسپیشل آڈٹ شروع ہو رہا ہے۔