اسلام آباد۔(محمداکرم عابد)سرکاری نشریاتی اداروں میں گھوسٹ ملازمین ، جعلی ڈگریوں پر نوکریاں حاصل کرنے کے انکشافات،میڈیا ہاوسز کو اشتہارات کی مد میں دس ارب روپے کی ادائیگیاں ،تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کا نوٹس،حکام کا کہنا ہے وفاقی وزیراطلاعات کی منظوری کے بعد ڈیٹا شئیرکیا جائے گا۔
کمیٹی نے تمام ناموں پر مشتمل رپورٹ طلب کرلی پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات کی تفصیلات فراہم نہ کرنے پر وزیرداخلہ کے خلاف کاروائی کا اعلان ۔کارکن صحافیوں کو تنخواہوں ،واجبات کی عدم ادائیگیوں ۔میڈیا ہاوسز سے بغیر تحریری نوٹسز کے تیس پچیس سال سے کام کرنے والے صحافیوں کی جبری برطرفیوں کے معاملات سینیٹ اطلاعات کمیٹی میں اٹھ گئے۔آئی ٹی این ای کے جج سمیت حکومت سے رپورٹ طلب۔
سینیٹر علی ظفر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس ہوا۔حکام نے کمیٹی بتایا کہ ٹی وی لائنس وصولی پر ادارے پر پابندی نہیں لگی بس یہ کہا گیا ہے کہ خودوصول کریں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی ٹی وی والے لینے گئے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے ٹی وی اٹھا کرلوگ باہرپھینک دیں گے ۔
اجلاس کے دوارن ٹی وی لائسنسں فیس کے معاملے کو ہنسی مذاق میں نظراندازکردیاگیا۔سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ پی ٹی وی کا ہمیشہ سے متعلقہ شعبہ غیرفعال تھا۔میرے دور میں یہ کام شعبہ کو دے دیاگیا تھا۔
سیکرٹری اطلاعات نے اعتراف کیا کہ ٹی وی والے فیس لینے گئے تو صورتحال خراب ہوسکتی ہے ۔ ایک رکن نے ازراہ تفنن کہا کہ اچھا مار پڑ جائے مجھے ان کے اہلکاروں نے عدالت سے ساڑھے چار کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کروادیا تھا۔ حکام نے بتایا کہ پی ٹی وی میں 84 ایسے ملازمین تھے کوبائیو میٹرک نہ کرتے تھے ان کو نکال دیا گیا بعض ارکان نے ان کے گھوسٹ ہونے کا شبہ ظاہرکیا ہے:۔پی ٹی وی میں 280 ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق نہ ہوسکی ان کو بھی نکال رہے ہیں۔ پی ٹی وی کے بے تحاشا بوسٹر104 ہیں غیر ضروری کو ختم کیا جارہا ہے۔ کمیٹی نے پی ٹی وی ریڈیو سمیت سرکاری میڈیا اداروں میں پانچ سال بھرتیوں کا ریکارڈ طلب کرلیا ۔
کمیٹی کوڈیجیٹل میڈیا کے استعمال سے متعلق بتایا گیا کہ جب پی ٹی وی کے الف نون سمیٹ معروف مشہور ڈراموں تفریحی مزاحیہ پروگرامات کو یوٹیوب پر ڈالنا شروع کیا تو اسٹرائیکزآنا شروع ہوگئیں یعنی اریکاویز سے یہ موادیا لیک ہوگیا تھا یا چوری کرلیا گیا ۔ پانچ سومیں پی ٹی وی ڈراموں کی فروخت کے اشتہارات چل رہے ہیں۔ مشہور ڈرامے چوری ہونے کے انکشافات پر ارکان نے اظہار تشویش کیا ہے۔ شبہ ہے کہ مافیا کے ہاتھوں فروخت ہوئے ہونگے۔
سندھ سے ایک سینیٹر نے کہا کہ رینجرز نے ایک علاقہ میں اربوں روپے مالیت کی ریڈیوعمارت پر قبضہ کریا جو بڑی مشکل سے واگزار کروایا گیا مگر اس عمارت کو پرسان حال نہیں ہے زیراستعمال نہیں نہ کوئی فکر ہے کراچی میں قائدآبادمیں ملیر ڈی سی آفس کے عقب میں قبضہ مافیا نے ریڈیو کے کواٹرز پر قبضہ کرلیا ان کو کرائے پر چڑھا دیا کوئی پوچھنے والا نہیں پانی بجلی گیس سب مفت ،بلکہ ریڈیو کی عمارت کے بجلی کنکشن پر کنڈے ڈال لیے گئے ہیں ۔بانی پاکستان نے اس ریڈیو عمارت سے پہلا خطاب کیا تھا اسے میوزیم بنادیں۔ کمیٹی نے فوری طورپر سیکرٹری اطلاعات کو دورہ کراچی کی ہدایت قبضہ مافیا کا نوٹس لینے عمارتیں خالی کروانے ان کے کمرشل استعمال کے جائزہ کی ہدایت کی ہے ۔
اجلاس کے دوران سینئرپارلیمانی رپورٹرمحمد اکرم عابد و دیگر کی جانب سے واجبات کا معاملہ اٹھنے پر کمیٹی نے آئی ٹی این ای سے نجی میڈیا ہاوسز میں تنخواہوں اور واجبات کی رپورٹ طلب کر لی ہے علی ظفر نے کہا کہ سرکاری میڈیا میں بے دریغ بھرتیوں سے اخراجات چار سے آٹھ ارب ہوگئے تعدادچارہزار سے تجاوزکرچکی ہے عارضی ملازمین الگ ہیں ۔
سینیٹر علی ظفر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس ہوا جس میں میڈیا کے شعبے سے متعلق اہم قانون سازی اور انتظامی امور پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں غیر اخلاقی اشتہارات کی ممانعت ایکٹ 2025، معلومات تک رسائی کا حق (ترمیمی) بل 2023، پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) اور ریڈیو پاکستان کے مالی معاملات اور الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پی ای سی اے) کے تحت مسائل کا جائزہ لیا گیا۔
سینیٹر افنان اللہ نے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر جوئے، شراب اور نامناسب لباس کو فروغ دینے والے مواد کی بڑھتی ہوئی نمائش پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے بین الاقوامی کرکٹ میچوں کے دوران سٹے بازی کے اشتہارات اور ٹی وی ڈراموں میں شراب کے استعمال کی عکاسی کو ریگولیٹری کی غلطیوں کے ثبوت کے طور پر حوالہ دیا۔سینیٹرز نے پیمرا کے موجودہ قوانین پر عملدرآمد پر سوالات اٹھائے۔ سینیٹر پرویز رشید نے دلیل دی کہ جرمانے، بدتمیزی بہودگی روکنے میں ناکام رہے ہیں اور ثقافتی ضابطوں بالخصوص لباس کے حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے ۔
سینیٹر افنان نے واضح کیا کہ قانون سازی کا مقصد کسی کونشانہ بنانا نہیں ہے، سخت دفعات یا پولیس کی بلاجواز مداخلت سے گریز کیا جائے، وزیر اطلاعات کی حتمی پوزیشن معلوم کرلی گئی ۔اطلاعات تک رسائی کے حق (ترمیمی) بل پر سینیٹر زرقا سہروردی تیمور نے سرکاری محکموں کی جانب سے نامکمل یا منتخب ڈیٹا فراہم کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔کمیٹی نے پی ٹی وی میں بجٹ اور عملے کے مسائل کا جائزہ لیا۔
وزارت کے حکام نے اطلاع دی کہ روپے 11 ارب کا سالانہ بجٹ ختم ہوچکا تھا۔ 8.5 بلین صرف تنخواہوں میں چلے گئے۔ پی ٹی وی میں 3,507 ریگولر ملازمین کے ساتھ، کمیٹی نے گزشتہ پانچ سالوں سے ملازمت کا ریکارڈ طلب کیا۔ وقار مہدی نے کراچی میں ریڈیو پاکستان کی عمارتوں پر ناجائز قبضے اور غیر مجاز کنکشنز کے ذریعے بجلی چوری پر خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ انہوں نے حالات کا جائزہ لینے اور مزید تجاوزات کو روکنے کے لیے اسلام آباد سے باہر ریڈیو پاکستان کی جائیدادوں کے معائنے کا مطالبہ کیا۔، کمیٹی نے PECA کے تحت صحافیوں اور سوشل میڈیا کارکنوں کے خلاف مقدمات کے اندراج پر بات کی۔
سینیٹر علی ظفر نے یہ بھی ابزرویشن دی کہ کہ وزارت اطلاعات رپورٹ فراہم کرنے میں ناکام رہی اور وزارت داخلہ کو اس کی درخواست کا جواب نہیں دیا گیا۔
کمیٹی نے سیکرٹری داخلہ کو آئندہ اجلاس میں وضاحت کے لیے طلب کرنے کا فیصلہ کیا
کمیٹٰ کو بتایا گیا کہ اشتہارات کی مدمیں برقی و پرنٹ میڈیا کو دس اراب سے زائد اداکئے گئے اس ضمن میں رپورٹ 45صفحات پر مشتمل ہے پی آئی او نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا وفاقی وزیراطلاعات و نشریات رپورٹ کا جائزہ لے رہے ہیں ان کی حتمی منظوری کے بعدڈیٹا رپورٹ پیش کردی جائے گی
چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات کا ناموں کے ساتھ ڈیتا فراہم کیا جائے ۔اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ وزارت داخلہ نے پیکا مقدمات سے متعلق ڈیٹا نہ دیا تو وزیرداخلہ کے خلاف کاروائی کرنے پر مجبور ہونگے امید ہے تفصیلات آجائیں گی اسی طرح کارکنان صحافیوں کے واجبات تنخواہوں سے متعلق بھی متعلقہ حکام کو طلب کرتے ہوئے رپورٹ طلب کی گئی ہے ۔