اسلام آباد(محمداکرم عابد) پارلیمینٹ میں اپوزیشن کی بڑی جماعت کے ارکان کے بغیر کمیٹیوں کے اجلاسوں کا انعقاد جاری ہے اور پارلیمان میں روایتی رونق کا سلسلہ کم ہوتا جارہا ہے ،بعض ناقدین کاکہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹ قومی اسمبلی کی کمیٹیوں سے استعفوں کے باعث پارلیمان بحران گہرا ہوتا جارہا ہے ۔
وفاقی وزیرڈاکٹر طارق فضل کی سربراہی میں پارلیمانی پبلک اکاونٹس کمیٹی کی جائزہ وعملدرآمدذیلی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا،وزارت صحت و ذیلی اداروں کے حسابات کی جانچ پڑتال کی گئی۔طارق فضل چوہدری کمیٹی کے کنوینئرہیں ۔ارکان پی ٹی آئی کے ثناءاللہ مستی خیل،حنا ربانی کھر،رانا قاسم نون شریک نہ ہوسکے۔ آغازمیں وفاقی سیکریٹری صحت کی عدم شرکت پر سخت اظہار برہمی کیا گیا.
واضح رہے کہ وفاقی سیکریٹری صحت کے پاس وزارت ہاوسنگ کا اضافی چارج بھی ہے اس حوالے سے وہ مصروف بتائے گئے۔کنوینئر کمیٹی طارق فضل چوہدری نے سیکریٹری کی عدم شرکت کا نوٹس لیتے ہوئے کاروائی معطل کردی اور کہا کہ متعلقہ وفاقی سیکیرٹری کی عدم شرکت پر اجلاس نہیں ہوسکتا ،پبلک اکاونٹس کمیٹی اور دوسری کمٹیوں میں فرق ہے.
ایڈیشنل سیکریٹری نے کہا کہ وفاقی سیکریٹری صحت اجلاسوں میں مصروف ہیں میں ان کی نمائندگی کررہا ہوں۔
وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ اس کمیٹی میں چیف اکاونٹینگ آفیسر کا ہونا ضروری ہے،سیکریٹری کو بلائیں. وفاقی سیکریٹری کی عدم شرکت پروفاقی وزیر نے کمیٹی اجلاس کو روک دیا اور کہا کہ سیکریٹری صحت آئیں گے تو ہی اجلاس ہو گا۔
آڈٹ کو ہدایت کی گئی کہ موجودہ حکومت کے دور کے آڈٹ پیراز بھی کمیٹی کے سامنے پیش کیئے جائیں حکام کا کہنا تھا کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں پچھلی صدی کے آڈ ٹ ا عتراضات کی بجائے فریش معاملات کی جانچ پڑتال ہو، کنوینر کمیٹی نے انتباہ کیا کہ متعلقہ پرنسپل اکاونٹنگ افسر کے بغیر میٹنگ نہیں ہو سکتی، اس سے پہلے ایسا ہوا نہیں کہ سیکرٹری کے بغیر میٹنگ ہوئی ہو، کنوینر کمیٹی نے ایڈیشنل سیکرٹری کو سیکرٹری صحت کو بلانے کی ہدایت کردی،
کمیٹی کے بلانے پر سیکرٹری صحت کمیٹی اجلاس میں پہنچ گئے۔ابھی تک 40 آڈٹ پیراز اسی پوزیشن پر موجود ہیں عرصہ دراز سے التواءکا شکار ہیں کوئی تو فیصلہ ہو۔اوریہ پیراز 2000 سے 2010 تک کے ہیں،کمیٹی کو لگ رہا ہے ڈیپارٹمنٹ ایک دوسرے سے سخت ناراض ہیں،بات کرنا پسند نہیں کرتے، پمز کی جانب سے غیر مجاز طور پر حکومتی فنڈز کمرشل بینک اکاونٹ میں ٹرانسفر کرنے سے متعلق آڈٹ اعتراض کے دوران پوچھا گیا کہ ذمہ داری کا کیا تعین کیا ہے؟
پمزحکام نے کہا کہ جن پر ذمہ داری ہے وہ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں،پروسیجرل خامیاں ہیں لیکن غبن نہیں ہوا،آڈٹ حکام نے کہا کہ زمہ دارافسران سے نہ ریکوری ہوتی ہے نہ سزا ۔ جبکہ سبکدوش افسران کی جائیدادیں آڈٹ پیراز سے منسلک ہوسکتی ہیں ۔کمیٹی نے کچھ آڈٹ اعتراضات پر وزارت صحت کو مزید وقت دے دیا۔