برازیلیہ(ای پی آئی)برازیل کے صدر لوئیز لولا ڈی سلوا نے فوج کے سربراہ کو برطرف کر دیا ہے۔ یہ برطرفی دارالحکومت میں مظاہرین کی طرف سے پارلیمنٹ، صدارتی محل اور سپریم کورٹ پر دھاوا بولنے کے واقعے کے دو ہفتے بعد عمل میں لائی گئی ہے۔

آرمی چیف جنرل جولیو سیزر ڈی اروڈا نے سابق صدر جائیر بولسونارو کی مدت ختم ہونے سے چند دن قبل 30 دسمبر کو فوج کی کمان سنبھالی تھی۔برازیل کے صدر کا کہنا ہے کہ فوج کے مشتبہ افسران مظاہرین کا ساتھ دے رہے تھے۔انھوں نے حالیہ دنوں میں درجنوں فوجی افسران کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا ہے۔

سابق صدر جائیر بولسونارو کے ہزاروں حامیوں نے آٹھ جنوری کو کانگریس، صدارتی محل اور سپریم کورٹ پر دھاوا بولنے کے بعد شہر میں بغیر کسی روک ٹوک کے مارچ کیا۔

برازیل میں بڑے پیمانے پر یہ فسادات اس وقت ہوئے جب صدر لولا ڈی سلوا کی حلف برداری کو محض ایک ہفتہ ہی گزرا تھا۔ان فسادات کے بعد تقریبا 2000 افراد کو ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار کر کے پولیس اکیڈمی لایا گیا تھا۔

حکام کے مطابق لگ بھگ 600 مزید احتجاجیوں کو دیگر مراکز میں لے جایا گیا ہے، جہاں پولیس پانچ روز کے اندر ان پر فرد جرم عائد کر کے مقدمے کی کارروائی کرے گی۔اس وقت زیرحراست مظاہرین کی تعداد 1200 بتائی جاتی ہے۔سپریم کورٹ اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس میں سابق صدر جائیر بولسونارو کے کردار کو بھی دیکھا جا رہا ہے۔

پراسکیوٹرز کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان مظاہروں کو انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سابق صدر نے ممیز دی ہو جنھوں نے ایک ویڈیو پیغام میں گذشتہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے تھے۔تاہم سابق صدر نے اپنے حامیوں کو اس طرح کے احتجاج پر اکسانے میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی ہے۔