اسلام آباد(محمداکرم عابد)پاکستان کی سیاسی پارلیمانی جمہوری تاریخ میں پہلی بار پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس اپوزیشن لیڈرز کے بغیر منعقدہو،اتاحال چیئرمین سینیٹ یوسف رضاگیلانی،اسپیکرقومی اسمبلی سردارایازصادق ایوانوں میں اپوزیشن لیڈرزکا تقرر نہ کرسکے ہیں۔ سات بلز منظورکرلئے گئے جن میں سے کچھ بلز سابق صدر عارف علوی نے اعتراضات کے ساتھ واپس کردیئے تھے۔
اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی کی صدارت میں منعقد ہوا۔چیئرمین سینیٹ یوسف ،سربراہ جے یو آئی (ف)مولانا فضل الرحمان چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہرخان بھی موجودتھے قومی اسمبلی میں بھرتیوں سے متعلق بل بھی منظورکرلیا گیا یہ بل بھی واپس کردیا گیا تھا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں بھرتیوں ترقیوں سے متعلق مزیداختیارات لئے گئے ہیں۔بیرسٹرگوہرخان نے اقلیتوں سے متعلق بل پر صدر پاکستان کے اعتراضات سے آگاہ کیا، یہ بل سابق صدر عارف علوی نے 8نکات پر مشتمل تجاویز کے ساتھ پارلیمینٹ کو واپس بھیج دیا تھا ۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے ارکان پارلیمینٹ کا آگاہ کیا کہا اعتراضات کو دور کردیا گیا ہے،آئین نے اقلیتوں کی تشریح کردی ہے ۔کوئی اور اس قانون سے فائدہ نہیں اٹھاسکے گا۔غیر مسلم کا اقلیتی کمیشن ہوگا،مشترکہ اجلاس میں کمیشن سمیت دیگر معاملات سے متعلق بلز کوکثرت رائے سے منظور کرلیاگیا۔متحدہ اپوزیشن کی جانب سے اقلیتی کمیشن و بعض دوسرے بلزکی مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا گیااور ایوان میں نعرہ تکبیر،غلامی رسولﷺ میں جان بھی قربان،تاجدارختم نبوت زندہ باد،عاشق رسول کو رہا کرو،قادیانیت مردہ باد دیگرنعروں کی گونج تھی۔
پی ٹی آئی ارکان پارلیمینٹ کی جانب سے جعلی حکومت نامنظور،عمران خان کو رہا کرو،سلیکٹڈحکومت نامنظور ،قیدی نمبر804کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر متنازعہ قانون سازی کے حوالے سے سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے ہیں اور کہا کہ ایسی قانون سازی کی جارہی ہے کہ اگر کوئی 18سال سے کم عمر کے بچے بچی کی شادی ہوگی تو اسے حکومت کی جانب سے تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔
امیر جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب آئین کے تحت بھی ختم نبوت کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے طے کردیا گیا ہے تو پھر اس حوالے سے اشکالات نہیں ہونا چاہئے ۔کوشش کی جائے آئین متنازعہ نہ ہو ،آئین کو متنازعہ نہیں ہونا چاہئے ،ستائیسویں ترمیم بھی اٹھارہویں ترمیم سے پہلے کی ترامیم کی طرح متنازعہ رہے گی ،ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دو تہائی اکثریت کے باوجود سب کو اعتماد میں لیا گیا ۔اٹھارہویں ترمیم پر بھی نو ماہ بحث کی گئی ۔چھبیسویں ترمیم میں پی ٹی آئی براہ راست شریک نہ ہوئی مگر ہمارے زریعے بلواسطہ شریک رہی۔ستائیسویں ترمیم پر کسی کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہ کی گئی ۔بتایا جائے کہ ستائیسویں ترمیم میں جان بوجھ کر مشاورت کیوں نہ کی گئی ۔کچھ شخصیات کو استشنی دئیے گئے ۔طبقات کیوں پیدا کئے گئے ۔
ایک سال گزر گیا مگر 26ویں ترمیم کے وقت سود اور مدارس کے حوالے سے کی گئی قانون سازی پر کچھ عمل نہیں ہورہا ہے ۔آج پنجاب میں علمائے کرام کے بازو مروڑے جارہے ہیں ۔جو مدارس وزارت تعلیم سے رجسٹرڈ ہوتے ہیں ان کی بات سنی جاتی ہے باقی رل رہے ہیں ۔اٹھارہ سال سے کم عمری کی شادی اور ٹرانس جینڈر کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل تحفظات سامنے آ چکے ہیں ،اقوام متحدہ کا کہہ کر بلز منظور کئے گئے ہیں ،کیا آپ نے حلف اقوام متحدہ کا اٹھایا ہے یا آئین کا اٹھایا ہے ؟حکومت آج یہود و نصاری کی پیروی کرتی نظر آرہی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کس لئے ہے وفاقی وزیرقانون وانصاف اعظم نزیرتارڑ نے ایک بار پھر واضح کیا کہ آئین کے مطابق قران وسنت کے منافی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ سینیٹرراجہ ناصر عباس نے کہا کہ اپوزیشن کے سانس کو بند کیا جارہا ہے۔گلہ گھونٹا جارہا ہے تاحال اپوزیشن لیڈرز کی تقرری نہیں کی گئی ۔ مشترکہ اجلاس میں متذکرہ بلز مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی ایم کیو ایم پاکستان دیگر نے حمایت کی ۔ اجلاس کا بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے شدیداحتجاج کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کردیا۔پارلیمینٹ میں احتجاجی ریلی نکالی اور گاڑیوں میں بیٹھ کر اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف چلے گئے۔


