کوپن ہیگن(ای پی آئی)آئیے آج وائلے کی سیر کو چلتے ہیں۔ یہ ڈنمارک کا 9واں بڑا شہر ہے جسے اپنی ٹیکسٹائل ملوں کی وجہ سے صنعتی دور میں ڈنمارک کا مانچسٹر بھی کہا جاتا تھا، لیکن اب یہ شہر اپنی ونڈ ملز اور چیونگمز کے لیے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔
ڈنمارک عمومی طور پر ایک میدانی علاقے جیسا ہے لیکن وائلے آکر اس کے پہاڑی علاقہ ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ دراصل یہ وادی ہے جس کی تاریخ ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ مجھے کئی مرتبہ اس شہر کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارے دوست ذیشان مقبول پیشے کے اعتبار سے انجنیئر ہیں اور اسی شہر میں بستے ہیں۔ انہی کے توسط اور ہمراہ کئی بار اس شہر کو دیکھا لیکن کبھی اس کی سیر کا تذکرہ نہیں لکھا۔ اس دفعہ ہمارے یورپ ٹور کا پہلا قیام انہی کے پاس تھا اس لیے سوچا کہ آپ کو بھی اس خوبصورت وادی کی سیر کروائی جائے۔
اوڈنسے کی سیر کے بعد شام گئے ہم یہاں پہنچے۔ اسکینڈے نیویا کے موسمِ گرما میں سورج ڈوبتے ڈوبتے رات کے 10 بجا ہی دیتا ہے، اس لیے بظاہر شام کو ہم نے شہر کا رخ کیا۔
ہماری پہلی منزل شہر کی وہ مشہور عمارتیں تھیں جو ایک لہر کی صورت میں ہیں۔ یہ جدید انداز کی رہائشی عمارتیں ہیں جو دریا کنارے بنائی گئی ہیں۔ دریا کا کنارہ اور لہروں جیسی یہ عمارتیں ایک خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ اسی منظر کے دوسری طرف ڈنمارک کو یورپ سے ملانے والی موٹروے ای 45 گزر رہی ہے، اور اس دریا کے اوپر 1980 کی دہائی میں بنا ہوا پل دور سے آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتا ہے۔ انہی 2 مناظر کے سنگم پر ایک واکنگ ٹریک اور چھوٹا سا پارک بنا ہوا ہے جہاں شام ڈھلے شہر کے باسی سیر کرنے کو نکلتے ہیں۔
ہم نے یہاں کے مشہور چرچ کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی۔ ڈنمارک میں زیادہ تر عوامی مقامات پر ہفتہ شام 5 بجے سے پیر کی صبح 8 بجے تک پارکنگ فری ہوتی ہے۔ ایسی اچھی خوبی ہمسایہ ممالک کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہاں سے چند قدم کے فاصلے پر شہر کا ٹان ہال اور واکنگ اسٹریٹ ہے۔ شام کے اس پہر یہاں چند لوگ ہی موجود تھے اور دکانیں بند ہوچکی تھیں۔ ڈنمارک کی اس عادت کو اپنے ہاں نقل کیا جاسکتا ہے کہ دکانیں اور بازار سر شام ہی بند کردیے جائیں۔ یہاں کے ورک لائف بیلنس کی دنیا دیوانی ہے۔ بازار صبح 8 بجے کھلتے ہیں اور شام 8 تک بند ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ بڑے بڑے سینٹر اور دارالحکومت کے بڑے بڑے مالز بھی ایسے ہی اوقات کی پابندی کرتے ہیں۔ یہاں پر سورج کی روشنی کو استعمال کرنے کی روش پائی جاتی ہے۔ سردیوں میں چونکہ دن مختصر ہوجاتے ہیں اس لیے گھڑی کو ایک گھنٹہ پیچھے کرکے سورج کی روشنی کا جتنا استعمال بڑھایا جاسکے بڑھایا جاتا ہے۔