گلگت(ای پی آئی)یہاں زخ کی سواری نہ کرنا محروم رہنے کے مترادف ہے۔ اس ایڈونچر کے بعد اندازہ ہوا کہ پرانے ادوار میں لوگ کتنی مشکل سے سفر کرتے ہوں گے،سردیاں ختم ہونے کو آرہی ہیں اور آپ آئے نہیں، لیکن ابھی بھی موقع ہاتھ سے نہیں گیا۔ رٹو میں ونٹر فیسٹیول کا انعقاد کروا رہا ہوں، آپ ضرور آئیے، انتظامیہ میں پیش پیش میرے دوست ہمایوں بھٹی(او سی استور)کی اس کال نے ہمیں ایک بار پھر سفر کی ہمت دی اور ہم 5 دوستوں نے استور جانے کا فیصلہ کرلیا۔
میرپور (آزاد کشمیر)سے دوپہر کو روانہ ہوئے اور اگلے دن صبح 4 بجے استور جا پہنچے۔ فروری کے شروع میں ٹھنڈ اپنے عروج پر رہتی ہے اور اس سردی میں وہاں یخ بستہ کمرے میں بغیر ہیٹر کے رات گزارنا ساری زندگی یاد رہے گا۔
حال ہی میں ولایت سے بڑی چاہ سے منگوایا گیا نیا ڈان سلیپنگ بیگ بھی خون جما دینے والی سردی میں جواب دینے لگ گیا، خیر اللہ اللہ کرکے رات گزاری۔ یہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھا کہ چند گھنٹوں کی نیند نے جسم میں دوبارہ جان سی ڈال دی۔ صبح دیوسائی کے دوست دولت خان کا گھر چھوڑ کر جیپ پر سوار ہوئے اور رٹو میلہ دیکھنے آرمی ہائی آلٹیٹیوڈ اسکول جا پہنچے۔
رٹو میں پاکستان آرمی کا ہائی آلٹیٹیوڈ اسکول 1983 سے موجود ہے جہاں برفانی علاقوں سے نبردآزما ہونے کے لیے فوجی دستوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ اس سے قبل میں رٹو سے کیل، رٹو سے شکر گڑھ نالہ کی معیت میں تابٹ اور اس طرح چھچھیری سے تابٹ کی ٹریکنگ کرکے اس خوبصورت علاقے کو تسخیر کرچکا ہوں۔
رٹو سے ملحقہ علاقے انتہائی خوبصورت ہیں۔ استور کے شاید انتہائی خوبصورت علاقوں میں رٹو کا شمار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں کالا پانی، منی مرگ، چلم کے علاقے بھی وادی استور میں لاجواب اور بے مثال ہیں۔ وادی نیلم سے ہمسائیگی اور گلگت بلتستان سے وراثت میں ملنے والے دیو ہیکل پہاڑ استور کی وادیوں کو مزید چار چاند لگادیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی نیلم اور گلگت بلتستان کے حسن کا امتزاج استور کے علاقے میں بخوبی نظر آتا ہے۔
رٹو میلہ پاکستان آرمی اور مقامی انتظامیہ کے تعاون سے سجایا گیا تھا۔ جنگل میں منگل دیکھ کر جی خوش ہوگیا۔ میلے میں مقامی اسٹالز اور نمائشی اسلحے کے اسٹالز آنے والوں کی توجہ کا خاص مرکز تھے۔ ان علاقوں کے تمدن اور روایات کا خاصا بھیدی ہونے کے باوجود میلے میں سجی بہت سی چیزیں میرے لیے نئی تھیں۔ کانگڑی، بلوش، چلم، کری اور کھپیں کیا آپ نے ان سب کے نام سنے ہیں؟ اس طرح سیاچن کی برف پوش وادیوں میں استعمال ہونے والے برتن، کھانے، لباس اور دیگر لوازمات نے بھی ہماری توجہ اپنی طرف کھینچے رکھی۔
دوپہر کی تواضع کے بعد برگیڈ کمانڈر یونس صاحب کی ایما پر آئس اسکیٹنگ اور اسکیئنگ سے بھرپور لطف اندوز ہوئے۔ بس اتنا کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ٹی وی کی اسکرینز پر یہ کھیل جتنے آسان اور اچھے لگتے ہیں اتنے ہی حقیقت میں یہ مشکل اور مستقل محنت کی متقاضی ہیں۔ بہرحال میلہ بہت ہی معلوماتی تھا اور ونٹر گیمز کے حوالے سے بہت ہی اچھی کاوش تھی۔
مغرب کے وقت واپس استور پہنچے۔ گزشتہ شب کی سردی اور ہماری برداشت کا خیال دل میں گھوم ہی رہا تھا کہ ہمایوں بھٹی نے ہمیں آرمی میس میں رات ٹھہرانے کا بندوبست کروا کر ہمارے دل ایک مرتبہ پھر جیت لیے۔ منفی 14 ڈگری کی سردی میں گرم کمروں میں شب باشی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔
علی الصبح ناشتہ کرکے استور سے اسکردو کی راہ لی۔ استور سے جنگلوٹ تک عموما ایک گھنٹہ 40 منٹ کا وقت لگ جاتا ہے۔ جنگلوٹ سے ایک راہ گلگت اور دوسرا راستہ شاہراہ S1 کے ذریعہ اسکردو جاتا ہے۔ اسکردو کی طرف آنے والوں سیاحوں کے لیے کچورا پل کو ہمارے ایک دوست پل راحت کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں سے روڈ پر تعمیر کی وجہ سے اسکردو پہنچنا سفر وسیلہ ظفر کے بالکل متضاد نظر آتا رہا ہے جبکہ کچورا پل کو دیکھ کر دلی اطمینان اور سرور ملتا ہے کیونکہ یہاں سے اسکردو شہر کی آمد کا نقارہ بجنا شروع ہوجاتا ہے۔
دریائے سندھ، قراقرم کے میخ نما پہاڑ اور بل کھاتی سڑک، بس یہی اسکردو تک آپ کی مسافت کے ساتھی ہیں۔ پل راحت پہنچ کر اچانک دل مچل سا گیا اور کچورا جھیل کی طرف گاڑی کا رخ بغیر کسی مشاورت کے موڑ دیا گیا۔ آوارہ کوہ نوردوں کے لیے سر اثبات میں ہلانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ کچورا جھیل عجب نظارہ پیش کرتی ہے جبکہ جھیل کے گرد چھایا سناٹا استغراق میں بہت ہی مددگار ثابت ہورہا تھا۔ ہم سب خاموشی سے ان حسین مناظر کو اپنے اپنے کیمروں میں قید کرنے لگے۔ کچھ وقت گزارنے کے بعد جلد ہی اپنی اگلی منزل اسکردو شہر کی طرف گامزن ہوگئے۔
اب منزل سدپارہ ڈیم کی طرف تھی۔ سردیوں میں یہ علاقہ شدید ٹھنڈا رہتا ہے۔ دیوسائی کے برفانی پہاڑ اس کے عقب میں موجود ہونے کی وجہ سے سردی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ خطہ بلتستان میں یہاں فصل کی کاشت سب سے آخر میں جاتی ہے۔ سردیوں میں ڈیم کا گہرے نیلے رنگ کا پانی اور عقب میں موجود پہاڑ بہت ہی دلفریب منظر پیش کررہے تھے۔ وقت جیسے تھم سا گیا ہو جیسے دنیا ختم سی ہوگئی ہو اور سیاحوں کی دنیا میں سے صرف ہم ہی نمائندگی کررہے تھے۔