اسلام آباد (ای پی آئی)علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں منعقدہ ” پختون ثفاقت میں زبانی تاریخ کی اہمیت "کے موضوع پر سیمینار کے مقررین نے گمشدہ رویات کو تلاش اور انہیں محفوظ کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ہماری رویات ہم سے کہیں گم ہوچکی ہیں اور تاریخ آج تک داستان گوئی کی بدولت زندہ ہے۔سیمینار کا اہتمام یونیورسٹی کے ایکسی لینس سینٹر میں قائم ہسٹری چئیر نے کیا تھا جس کی صدارت پروفیسر فتح محمد ملک نے کی، پشتوں ادب کی معروف شخصیت، ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کلیدی مقرر تھے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اباسین یوسفزئی نے کہا کہ پشتونوں نے 100سال قبل تک اپنی کوئی تاریخ نہیں لکھی، پختون قوم کی ثقافت قصوں اور کہانیوں کی صورت میں سینہ بہ سینہ نئی نسل تک پہنچ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پختوں کے لباس’شلوار قمیص’بھی پختوں ثفافت کا ایک حصہ ہے جسے قومی لباس کا درجہ دیا گیا ہے۔اباسین یوسفزئی نے پختون ثفافت میں مہمان نوازی، ہجرے اور جرگے کی روایات پر بھی روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ ہماری تمام تر ثقافتیں ایک دوسری کی رشتہ دار ہیں جو ایک دوسرے کی تقافتوں میں ضم شدہ ہیں۔دیگر مقررین میں ہسٹری چئیر کے صدرنشین، انعام اللہ شیخ، ایکسی لینس سینٹر کے منتظم اعلی محمد رفیق طاہرشامل تھے۔انعام اللہ شیخ نے کہا کہ ثفافتوں کومحفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ داستان گوئی کی بدولت تاریخ آج زندہ ہے۔پروفیسر فتح محمد ملک نے کہا کہ روایات کو محفوظ کرنے کے لئے ادبیات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ محمد رفیق طاہر نے ایکسی لینس سینٹر کے قیام کے اغراض و مقاصد تفصیل سے بیان کئے۔