اسلام آباد (ای پی آئی )فوجی عدالتوں میں سویلینز کے خلاف کیسز چلانے کے خلاف دائر درخواستوں پر بنائے گئے 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 30 صفحات پر مشتمل جاری کر دیا ، جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہوتے ہی ہٹا دیا گیا۔

نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں مقدمات بھیجے کے حوالے جاری 30 صفحات پر مشتمل اپنے نوٹ میںجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ نہ میں نے کبھی کسی چیف جسٹس سے گزارش کی کہ مجھے کسی کام کیلئے کسی رجسٹری بھیجا جائے نہ کبھی رجسٹرار آفس کو کسی نوعیت کا مقدمہ لگانے یا نہ لگانے کا کہا، جب سے میری تعیناتی عدالت عظمٰی میں ہوئی تب سے آج تک کبھی کسی مقدمے کی سماعت سے گریز نہیں کیا۔

انہوں نے لکھا کہ ہمیشہ کوشش رہی کہ ہر فیصلہ ایک ہی پیمانے سے آئین و قانون کے مطابق کروں، ہمیشہ کوشش رہی کہ مقدمے کے ہر فریق کو ایک نظر سے دیکھوں، پوری سراحت سے کہتا ہوں سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف مقدمے سے خود کو دستبردار نہیں کر رہا، اب اگر میں یہ مقدمات سنوں تو میں اپنے آئینی و قانونی مؤقف کی خلاف ورزی کروں گا۔

جسٹس فائز عیسٰی نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ آج کے دن تک چیف جسٹس نے میرے مؤقف کی تردید نہیں کی، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی معطلی کے بعد سے عدالت میں نہیں بیٹھا بلکہ انہوں نے تو جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا، مجھ ناجیز کی رائے میں عدالت عظمٰی کےسربراہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

نامزد چیف جسٹس آف پاکستان نے لکھا کہ مجھے ادراک ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے ساتھیوں کو بلا وجہ غیر ضروری کشمکش میں الجھا دیا ہے، جسٹس طارق مسعود نے بھی شروع میں کسی بنچ میں بیٹھنے سے کنارہ کشی اختیار کی، جسٹس طارق مسعود کے مؤقف کا احترام کرتا ہوں، اسی طرح وہ میرے مؤقف کا احترام کرتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق عدالت عظمٰی جیسا آئینی ادارہ فرد واحد کی مرضی سے نہیں چل سکتا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا اطلاق چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر ہوتا ہے، سینئر ترین جج کی حیثیت میں سمت کو درست رکھنا میرا فریضہ ہے، ججز کا گلدستہ فضا معطر رکھے گا، کسی کو شک نہ ہو مخصوص فیصلہ کیلئے خصوصی بنچ تشکیل دیا گیا۔