جاپان(ای پی آئی) امریکن اکادمی برائے نیورولوجی میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج کے دور میں سماجی تنہائی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔

بزرگ تنہا رہتے ہیں اور جوان تیز رفتار زندگی کی بنا پر انہیں وقت نہیں دے پاتے، اس سے ایک بحران پیدا ہوگیا ہے لیکن اس سے بزرگوں کا دماغ چھوٹا ہو رہا ہے اور کئی افعال درست طور پر کام نہیں کر رہے۔

سائنسدانوں نے کہا ہے کہ انسان، سماجی حیوان کی طرح ہے اور تنہائی اس کی دشمن ہے۔ بالخصوص بزرگوں میں طویل اکیلا پن ان کے دماغ میں سکڑاؤ کی وجہ بنتا ہے۔ اس سے الزائیمر اور ڈیمنشیا جیسے مرض آگھیرتے ہیں۔

یہ تحقیق، جاپان کی کیوشو یونیورسٹی سے وابستہ توشی ہارا نینومایا اور ان کے رفقا نے کی ہے۔

انہوں ںے زور دیا ہے کہ الگ تھلگ رہنے والے افراد زیادہ اداسی اور بے چارگی محسوس کرتے ہیں۔ یہ کیفیت ایک عارضہ بن جاتی ہے اور اس سے ڈیمنشیا کا خطرہ بڑھنے لگتا ہے۔ دماغ کے بعض اہم حصوں کے سکڑاؤ کو ’برین ایٹروفی‘ کہا جاتا ہے۔

اس تحقیق میں 73 سال کی اوسط عمر کے کل 8896 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے ایک مریض بھی ڈیمنشیا سے متاثرنہ تھا۔ ان کے دماغی ایم آرآئی اور دیگر ٹیسٹ بھی کئے گئے۔ پھر تمام شرکا سے سوالنامے بھروائے گئے۔ ان میں رشتے داروں سے ملنے، دوستوں کی تعداد، فون پربات چیت اور سماجی روابط کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔

اسی طرح روزانہ، ہفتہ وار اور مہینہ وار ملاقاتوں کا ڈیٹا بھی جمع کیا گیا۔حیرت انگیز طورپرجن بزرگوں کا سماجی رابطہ جتنا کم تھا بقیہ کے مقابلے میں ان کے دماغی حجم اتنا ہی کم دیکھا گیا۔ اس میں بالخصوص دماغ کے سفید اور بھورے حصے کو نوٹ کیا گیا۔

بغور مطالعے سے معلوم ہوا کہ بھیجے میں مائع، سفید اور بھورے مادے کا حجم غیرمعمولی طور پر67 فیصد تک کم تھا۔ واضح رہے کہ یہ ان افراد کے دماغ کی بات ہورہی ہے جو بالکل الگ تھلگ رہتے ہیں اور کسی سے بات نہیں کرتے۔

اس کے علاوہ سماجی طور پر سرگرم بزرگوں کے مقابلے میں ان کے اہم دماغی حصے یعنی ہیپوکیمپس، اور ایمگڈالا بھی دیگر کے مقابلے میں چھوٹے ہی تھے۔ یہ دونوں حصے یادداشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

امریکن اکیڈمی آف نیورولوجی نے اس تحقیق کے بعد کہا ہے کہ بزرگوں کو سماجی طورپرشامل کرنے کی اشد ضرورت ہے اور انہوں نے حکومتوں پر زوردیا ہے کہ وہ اسے قومی صحت پالیسی میں بھی شامل کریں۔