اسلام آباد(عابدعلی آرائیں) اسلام آباد ہائیکورٹ نے بشری بی بی کی آڈیو لیک کیخلاف دائر کی گئی درخواست کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے ۔
جسٹس بابر ستار کی جانب سے پانچ صفحات اور 9 پیراگراف پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا گیا ہے
پیراگراف نمبر ایک
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان درخواستوں پر دفتر کی جانب سے دو اعتراضات اٹھائے گئے تھے کہ ایک تو اس میں دومختلف نوعیت کی استدعائیں کی گئی ہیں اور دوسرا مقدمہ میں کسی فریق کی نشاندہی نہیں کی گئ ۔ عدالت نے کہا ہے کہ یہ دونوں اعتراضات ختم کئے جاتے ہیں عدالت نے کہا ہے کہ چونکہ پہلی درخواست میں فریقین کے نام لکھے گئے ہیں اس لئے متفرق درخواست میں فریقین کی نشاندہی ضروری نہیں ہے ۔ عدالت نے یہ اعتراضات دور کرتے ہوئے آج ہی درخواستوں کو نمبر لگا کر سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہدایت کی ،
عدالت نے مرکزی درخواست کے فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزار(بشری بی بی) اپنے وکیل کیساتھ ٹیلیفونک گفتگوکی ریکارڈنگ سے متاثر ہوئی ہیں کیونکہ یہ ریکارڈنگ سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن چینلز پر نشر کردی گئی ۔
پیراگراف نمبر دو
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹیلی فونک بات چیت ریکارڈ کرنے کی کوئی قانونی اجازت نہیں ہے۔
شہریوں کی ایسی ریکارڈنگ عزت اور رازداری کے اس حق کی خلاف ورزی ہے جس کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 14 کے ذریعے دی گئی ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ اسی نوعیت کے ایک اور مقدمہ میںوفاقی حکومت موقف دے چکی ہے کہ ملکی قانون کے مطابق کوئی اتھارٹی یا ایجنسی یہ اختیار نہیں رکھتی کہ کسی شہری کی سرویلینس یا ٹیلیفونک گفتگوکی ریکارڈنگ کرے۔ وکیل نے مزید کہا کہ کسی وکیل اور اس کے موکل کی گفتگو ریکارڈ کرنا آئین کے آرٹیکل 9 اور 10اے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ ان دونوں آرٹیکلز میں زندگی ،آزادی اور فیئر ٹرائل کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے ۔ وکیل نے موقف اپنایا کہ کسی شہری کی اپنے وکیل سے پرائیویٹ گفتگو کی ریکارڈنگ کرنا انصاف تک رسائی سمیت را زداری کے حق کے بھی منافی ہے ۔
وکیل نے مزید کہاکہ غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی آڈیو ریلیز کی گئی اور اس کے بعد مین سٹریم میڈیا پر چلائی گئیں جو کہ پیمرا کی جانب سے جاری کی گئی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی ہیں ۔ سار ا دن تمام ٹی وی چینلز پر یہ نشریات جاری رہیں لیکن ان نشریات کو روکنے کےلئے کوئی ایکشن نہیں لیا اس کے بعد پرنٹ میڈیا نے بھی درخواست گزار کو ہراساں کرنے کیلئےوہی خبریں شائع کیں ۔
پیراگراف نمبر تین
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ آئین پاکستان پرائیویسی ، عزت و وقاراور بنیادی حق ازادی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔جن حقوق کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے ان کوریاست یا ریاست کو کوئی نوکر سبوتاژنہیں کرسکتا
آئین کی بنیاد ی سکیم اختیارات کی تقسیم اور چیکس اینڈ بیلنس فراہم کرتی ہے جس میں عدلیہ بنیادی حقوق کے اطلاق کی مشینری کے طور پر کام کرتی ہے آئین کے آرٹیکل 9 میں انصاف تک آسان رسائی دینا ہمارے آئینی دائرہ اختیار میں ہے۔وکیل کی خدمات لینے کا حق انصاف تک رسائی کیلئے انتہائی ضروری ہے اس حق کووکیل اور اس کے موکل کی گفتگوشائع کرکے کسی صورت مجروع نہیں کیا جاسکتا ۔
پیراگراف چار
عدالت نے لکھا ہے کہ جو معاملہ زیرسماعت ہے سے سے متعلق درخواست گزار کی وکیل سے کی گئی گفتگو ریکارڈ کرکے ریلیز کرناپریشان کن ہے ۔ اس طرح کے معاملے میں عدالت نے پہلے ہی وفقی حکومت کو نوٹس جاری کررکھے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت اداروں پر غیر قانونی سرویئیلینس اور پرائیویسی کے حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ہے ۔ عدالت نے لکھا ہے کہ وکیل اور کلائنٹ کی گفتگوکی ریکارڈنگ مستقل طور پر غیر قانونی نگرانی کی مشق جاری ہے اور یہ زیرسماعت معاملے میں ایسا ہونا بدقسمتی ہے ، وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت ادارے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ادار کرنے کی بجائے ان حقوق کی خلاف ورزی کرکے غیرقانونی و غیرآئینی اقدامات کے مرتکب ہورہے ہیں۔
پیراگراف نمبرپانچ
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ اگر بنیاد ی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہوتی ہے تو اس کے سنگین اثرات ہونگے کیونکہ سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ بار کی ایک درخواست پر کئے گئے حالیہ فیصلے میں قراردیاہے کہ اگر سروس آف پاکستان میں موجود کوئی شخص یا حکومت اس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں میں ملوث پایا جاتا ہے تو آئین کے آرٹیکل212ون بی کے تحت اسے متاثرہ شخص کوہرجانہ اداکرناہوگا۔ اس مقصد کےلئے ایک خصوصی ٹریبونل تشکیل دیا گیا ہے جہاں ریاست کی ناکامی کی وجہ سے شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہو اور سرکاری ملازم اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریاں اداکرنے میں ناکام ہو رہے ہوں وہا ں ہائیکورٹ متاثرین کامداوہ کرسکتی ہے ۔
پیراگراف نمبر 6
عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے اور فریق نمبر تین پیمراسے کہا ہے کہ وہ اپنی رپورٹ جمع کرائے اور وضاحت کرے کہ لیک ہونے والی نجی گفتگو نشر کرنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟
عدالت نے فریق نمبر دو ایف آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے میں سوشل میڈیا یوٹیوب، ٹویٹر اور فیس بک پر موجود موادکی انکوائری اور فورینزک معائینہ کرواکر پتہ چلائے کہ کن اکاؤنٹس سے یہ معلومات سب سے پہلے جاری کی گئی اور آئی پی ایڈریس کا پتہ چلایا جائے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ سب سے پہلے کس نے یہ معلومات ریلیز کیں ۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ انکوائری کرکے ان آئی پی ایڈریسز اور افراد کی نشاندہی کریں جنہوں نے سب سے پہلے یہ آڈیوز اپ لوڈکیں اس ضمن میں سوشل میڈیا کمپنیز سے بھی مددلیں عدالت نے پی ٹی اے سے کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کمپنیز سے مدد لینے کےلئے انہیں آگاہ کریں کہ عدالتی حکم پر عمل کےلئے انکی معاونت درکار ہے ۔
عدالت نے درخواست کی ایک کاپی ویزراعظم کی سربراہی میں کام کرنے والی ملک کی سب سے بڑی ایجنسی کے سربراہ ڈی جی آئی ایس آئی کو بھجوانے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی تمام ممکن اور دستیاب ذرائع و ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کرائیں اور ان افراد کی نشاندہی کرائیں جنہوں نے یہ آڈیوسوشل میڈیا یو ٹیوب، ٹوئٹراور فیس بک پر لیک کی ہے عدالت نے ڈی جی آئی ایس آئی کو تحقیقات کے بعد رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ عدالت نے تمام فریقین کو دس روز میں اپنے جوابات جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
پیراگراف نمبر سات
عدالت نے حکم میں لکھا ہے کہ آئندہ سماعت پرپی ٹی اے کے ڈی جی لاء ذاتی حیثیت میں پیش ہوں اوراپنی رپورٹ میں دی گئی تفصیلات کی وضاحت کریں کہ کیا پی ٹی اے کی طرف سے کسی لائسنس حاصل کرنے والے کو فون ٹیپنگ کی ہدایات دی گئی ہیں ۔
عدالت نے کہا ہے کہ پیمراکی ڈی جی لاء بھی آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت الیکٹرونک میڈیا کے کوڈآف کنڈکٹ سمیت عدالت میں پیش ہوں اور وضاحت کریں کہ لطیف کھوسہ اور درخواست گزارکے درمیان ہونے والی گفتگو یااس نوعیت کی گفتگو قومی ٹی وی چینلز پر نشر کی اجاسکتی ہے اور اگر نشر نہیں کی جاسکتی تو اب تک پیمرا نے بطور ریگولیٹر کیا ایکشن لیاہے؟
پیراگراف نمبر 8
عدالت نے ہدایت کی ہے کہ اس درخواست کی کاپیاں عدالتی حکم سمیت چیئرمین پیمرا، ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایف آئی اے اور چیئرمین پی ٹی اے کوعملدرآمد کیلئے بھجوائی جائیں۔
پیراگراف نمبر 9
عدالت نے حکم دیا ہے کہ اس کیس کو بھی پہلے سے زیرسماعت کیس کیساتھ یکجا کرکے 20دسمبر 2023 کوسنا جائے گا تاکہ عدالت کی طرف سے مانگی گئی رپورٹس کا فائدہ لیا جاسکے۔
کیس کی سماعت کے دوران بشری بی بی کی طرف سے سردار لطیف کھوسہ اور سوزین جہان خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے تھے۔