پشاور (ای پی آئی )پشاور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلے سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کرنے کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ہے جسٹس کامران حیات میاں خیل کی طرف سے جاری 3 صفحات پر مشتمل حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں فاضل ایڈیشنل اٹارنی جنرل ،ڈپٹی اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین کے وکلاء کو سنا گیا

درخواست گزاروں کے وکلاء نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 20 روز کے اندر کرائے گئےتحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق تھے یا نہیں الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو بغیر اختیار کے فیصلہ سنایا درخواست گزاروں کے وکلاء نے موقف اپنایا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 17/2 کے تحت ہر شہری کا حق ہے کہ وہ سیاسی جماعت تشکیل دے سکتا ہے اور کسی بھی مناسب قانونی حد کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت کا رکن ہو سکتا ہے اور الیکشن کمیشن کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے جس کے تحت وہ یہ قرار دے کہ سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن اس پارٹی کے آئین کے مطابق نہیں ہوئے

وکلاء نے مزید موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس بلاواسطہ یا بلواسطہ ایسا کوئی اختیار نہیں ہے جس طرح کا اقدام کیا گیا ہے اگر کسی پارٹی کے انتخابات اس کے آئین کے مطابق نہیں بھی ہوتے تو قانون اور قواعد کے اس حوالے کوئی اثرات نہیں ہیں وکلاء نے مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 208 کی ذیلی شق 5 میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک سیاسی جماعت اپنے ہی آئین میں دیئے گئے ٹائم فریم کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کرانے میں ناکام ہوتی ہے تو اس سیاسی جماعت کو شوکاز نوٹس جاری کیا جائے گا اور اگر وہ پارٹی شوکاز نوٹس کے باوجود الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عملدرآمد نہ کرے تو الیکشن کمیشن اس پر 2 لاکھ روپے تک کا جرمانہ کر سکتا ہے لیکن یہ جرمانہ1لاکھ روپے سے کم نہیں ہوسکتا الیکشن کمیشن کسی بھی صورت یہ ڈیکلیئر نہیں کر سکتا کہ سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن غیر قانونی یا کالعدم ہیں

درخواست گزاروں کے وکلاء نے مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 209 کے مطابق انتخابات کا انعقاد کیا گیا اور فارم 65 کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کا سرٹیفکیٹ جمع کروایا گیا لیکن الیکشن کمیشن نے وہ سرٹیفکیٹ اپنی ویب سائیٹ پر شائع کرنے کی بجائے درخواستگزاروں کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا کہ وہ وضاحت کریں کہ کیوں نہ ان کے انٹرا پارٹی الیکشن غیر قانونی قرار دیئے جائیں کیونکہ انھوں نے پارٹی کے آئین کے مطابق انتخابات نہیں کرائے

وکلاء نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو پی ٹی آئی کو اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کا موقع دیئے بغیر جلد بازی میں فیصلہ جاری کر دیایہ وضاحت کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا کہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کو پارٹی آئین کے مطابق منتخب کیا گیا ہے یا نہیں ۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ فاضل ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دیگر فریقین کے وکلاء کے ہمراہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر انٹرا پارٹی الیکشن سیاسی جماعت کے آئین کے مطابق نہ کرائے جائیں تو الیکشن کمیشن کے پاس یہ مینڈیٹ ہے کہ وہ ان انتخابات کو غیر قانونی قرار دے سکتا ہے انھوں نے اس حوالے سے الیکشن ایکٹ کی شق 202،208،209اور2015 کا حوالہ بھی دیا

عدالت نے لکھا ہے کہ دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ چونکہ عام انتخابات 8 فروری 2024 کو شیڈول ہیں اور انتخابی نشانات الاٹ کرنے کی آخری تاریخ 13 جنوری ہے اس لئے معاملے میں ارجنسی موجود ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو اس کا انتخابی نشان نہیں دیا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عام شہری جو درخواست گزاروں کی جماعت کو ووٹ دینے کی خواہش رکھتے ہیں ان کو اپنی پسند کے مطابق ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔

دفتر کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس مقدمہ کے تمام فریقین کو 9 جنوری 2024 کے لئے نوٹس جاری کیئے جائیں اس دوران الیکشن کمیشن کی طرف سے 22 دسمبر 2023 کو جاری کیا گیا متنازعہ حکم معطل کیا جاتا ہے اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جمع کرایا گیا سرٹیفکیٹ اپنی ویب سائیٹ پر شائع کرے اور پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان بحال کرے یہ حکم 9 جنوری 2024 تک قابل عمل ہوگا ۔

عدالت نے کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر ،بیرسٹر گوہر خان ،احمد اویس،ڈاکٹر بابر اعوان ،شاہ فیصل اتمان خیل ،شیر افضل مروت ،ارشاد احمد ،ایم انعام یوسفزئی ،علی زمان ،اور مشعال اعظم ایڈوکیٹ پیش ہوئے ۔
وفاق کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل دانیال خان چمکنی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ثناء اللہ پیش ہوئے ۔
دیگر فریقین کی جانب سے نوید اختر اور جہانزیب شنواری ایڈوکیٹ پیش ہوئے