اسلام آباد (عابدعلی آرائیں)سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاحیات نا اہلی کے خاتمے سے متعلق دائر کی گئی 10 درخواستوں پر تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے ۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس یحیٰ آفریدی ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندو خیل ،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 7 رکن لارجر بینچ نے 7 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ جاری کیا ہے ۔یہ فیصلہ 2،4اور 5 فروری کو یکے بعد دیگرے سماعتوں کے بعد محفعوظ کیا گیا تھا
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ اس فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں دی جائیں گی جس میں اس فیصلے کے اثرات اور وضاحت ہونگیں یہ فیصلہ 6 ۔1 کی اکثریت سے دیا جا رہا ہے جس میں قرار دیا جاتا ہے کہ
نمبر 1
عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف ازخود عملدرآمد والا آرٹیکل نہیں ہے کیونکہ اس میں کسی بھی خصوصی قانونی عدالت کا حوالہ نہیں دیا گیا جو ڈیکلیئریشن دے سکے اور نہ ہی اس آرٹیکل میں کوئی طریقہ کار بتایا گیا ہے اور نہ ہی ڈیکلیئریشن کے نتیجے میں نا اہلی کے عرصے کا تعین کیا گیا ہے
نمبر 2
عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ڈیکلیئریشن دینے کے لئے کسی قانون میں بھی کوئی طریقہ کار وضع نہیں ہے اور کسی قانونی عدالت کی نشاندہی بھی نہیں کی گئی اور نہ ہی نا اہلی کے مقصد کے لئے ڈیکلیئریشن کا کوئی دورانیہ دیا گیا ہے تاکہ فیئر ٹرائل کے بنیادی حق کی ضروریات،اور آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت ڈیو پراسیس کو پورا کیا جا سکے۔
نمبر 3
عدالت نے لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے کسی بھی شخص کی تاحیات نااہلی ڈیکلیئر کی گئی ہے اور ایسا سول عدالت کے ڈیکلیئریشن کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔سابقہ تشریح پر عمل فریقین کے کچھ سول رائٹس اور ذمہ داریوں کے حوالے سے معاملات اس آرٹیکل کے دائرہ کار سے باہر ہیں اور یہ تشریح آئین میں پڑھنے کے برابر ہے
نمبر 4
آئین میں اس تشریح کو اس طرح پڑھا جانا بھی تشریح کے اصولوں کےمنافی ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت شہریوں کو انتخاب میں حصہ لینے اور اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے اور آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح ان دونوں حقوق کا خلاصہ ہے
نمبر 5
جب تک اس آئینی شق کو قابل عمل بنانے کے لئے کوئی قانون نہیں بنایا جاتا اس وقت تک آرٹیکل 62 ون ایف انھی قدموں پر کھڑا ہوگا جیسا کہ آرٹیکل 62 ون ڈی ،ای اورجی کھڑا ہے اور ووٹروں کواپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے حوالے سے گائیڈ لائنز فراہم کرتا ہے
نمبر 6
عدالت نے لکھا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ بنام عبدالکریم نوشیروانی کیس کے فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ سول حقوق کی خلاف ورزی پرسول عدالت کی طرف سے ڈیکلیئریشن اور آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت دیئے گئے ڈیکلیئریشن سے تاحیات نا اہلی ہو گی اس کا مطلب ہے کہ یہ سزا آئین میں دی گئی سزا کے برابر پڑھی جا رہی ہے اس لئے اس سزا کو ختم کیا جاتا ہے
نمبر 7
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 232(2) میں 26 جون کو ترمیم کر کے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کسی بھی عدالت کی طرف سے ڈگری کی صورت میں نا اہلی کی مدت 5 سال کی گئی ہےاور یہ کہا گیا ہے کہ ایسا ڈیکلیئریشن قانون کے موثر طریقہ کار (ڈیوپراسیس) کے ذریعے دیا جائے گا یہ قانونی شق فیلڈ میں موجود ہے اس لئے موجود کیس میں اس کی ویلیڈیٹی اور سکوپ کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں6 دیگر سول اپیلیں بھی نمٹائی ہیں جبکہ5 اپیلوں کواس کیس سے الگ کرتے ہوئے قرار دیا گیا ہے کہ ان کو مناسب وقت پر مناسب بینچ کے سامنے سماعت کے لئے مقرر کیا جائے گا ۔

فیصلے کے آخری صفحے پر جسٹس یحیٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ ہے
جسٹس یحیٰ آفریدی لکھتے ہیں کہ انتہائی احترام کے ساتھ میں اس فیصلے سے اختلاف کرتا ہوں اس کی وجوہات بعد میں دی جائیں گی جہاں تک پارلیمنٹ کے ایک رکن کی اہلیت کی کمی کی حدکا تعلق ہے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نہ تو تاحیات اور نہ ہی مستقل نا اہلی کا ذکر ہے اس طرح نا اہلی کی وہی مدت موثر ہو گی جو قانونی عدالت کی طرف سے دیئے گئے ڈیکلیئریشن میں دی جائے گی اس لئے سپریم کورٹ کی طرف سے سمیع اللہ بلوچ بنام عبدالکریم نوشیروانی کیس میں جو فیصلہ دیا گیا ہے وہ قانون کے مطابق ہے اور اس کی توثیق کی جاتی ہے ۔
فیصلہ کھلی عدالت میں پڑھ کر سنایا گیا