اسلام آباد (عابد علی آرائیں)سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نےجسٹس مظاہر علی اکبرنقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری کارروائی میں شرکت سے انکار کی تفصیلی وجوہات جاری کر دی ہیں جس میں انھوں نے اب تک کی ہونے والی کارروائی پر سوالات اٹھا دیئے ہیں ۔جسٹس اعجازالاحسن نے 4 صفحات اور 7 پیرا گراف پر مشتمل تفصیلی وجوہات جاری کی ہیں

پیرا گراف 1
سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے لکھا ہے کہ 22 نومبر 2023 کو میں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کے ساتھ اس کارروائی میں بیٹھنے سے انکار کیا تھا جس میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کو کونسل میں دائر کی گئی شکایات پر دوسرا شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا ۔
میں نے واضح کیا تھا کہ میں اس انکار کی وجوہات بعد میں دونگا ۔
میں یہ حق رکھتا ہوں کہ کسی بھی وقت شوکاز نوٹس جاری کرنے کے حوالے سے اپنی وجوہات دے سکوں

پیرا گراف 2
اس سے پہلے کہ میں اپنی وجوہات تحریر کروں میں چاہتا ہوں کہ جس انداز میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کی کارروائی کی جا رہی ہے اس حوالے سے کچھ کہوں بد قسمتی سے میری رائے میں روایات کے برعکس غیر ضروری حسد کے تحت یہ کارروائی چلائی جا رہی ہے سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت اپنی آئنی ذمہ داریاں ادا کر سکتی ہے اس آرٹیکل کے متن میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل انتہائی احتیاط اور تفصیلی بحث کے بعد کوئی عمل کرے گی یہ وہ فورم ہے جہاں پر کوئی اکثریت نہیں اور نہ ہی ممبران میں سے کوئی اکثریت کے ساتھ اختلافات کرتا ہے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی میں اس اپروچ کی خاصی کمی پائی جاتی ہے ڈیبیٹ اور ڈسکشن بالکل نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دی جاتی ہے
جسٹس اعجازالاحسن لکھتے ہیں کہ 22 نومبر 2023 کو دوسرا شوکاز نوٹس جاری کرنے کی کارروائی میں بھی کوئی بحث یا غور نہیں کیا گیا اس انداز میں کارروائی کی وجہ سے پورے عمل پر ناخوشگوارشکوک و شبہات پیدا ہوئے میں اسی وجہ سے جس انداز میں یہ کارروائی چلائی جا رہی ہے اور جو طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے اس سے اختلاف کرتا ہوں

پیرا گراف نمبر 3
جسٹس اعجاز الاحسن نے لکھا ہے کہ جہاں تک جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر لگائے گئے الزامات کا تعلق ہے میری رائے میں وہ بغیر ثبوت اور بغیر شہادتوں کے ہیں ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور بادی النظر میں یہ حقائق کے منافی ہیں

پیراگراف 4
جسٹس اعجاز الاحسن نے لکھا ہے کہ مختلف جائیدادوں اور ٹرانزیکشنز کے حوالے سےایک جیسے الزامات لگائے گئے ہیں الزام نمبر 5 اور 9 ان جائیدادوں اور ٹرانزیکشنز سے متعلق ہیں جو جائیدادیں فاضل جج کے بیٹوں کی ہیں جسٹس مظاہر نقوی کے بیٹے پریکٹس کرنے والے وکیل ہیں اور ہر لحاظ سے آزاد شہری ہیں اور انھیں سنے بغیر نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ کارروائی اور جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ براہ راست جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بنام صدر پاکستان کیس میں دیئے گئے فیصلے کی فائینڈنگز سے متصادم ہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی ریفرنس اس بات پر دائر کیا جا سکتا ہو کہ جج کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے مالی طور پر آزاد ارکان کے بارے میں علم رکھے ۔
یہی بات الزام نمبر 10 کے بارے درست ہے جس میں فاضل جج کے بیٹوں کو ملوث کیا گیا ہے قانونی طور پر یہ الزامات درست نہیں ہیں اور ایک جج پر ایسے الزامات نہیں لگائے جا سکتے

پیراگراف نمبر 5
جسٹس اعجاز الاحسن نے لکھا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر لگائے الزامات نمبر 2 تا 4 اور 6 تا8 فاضل جج کی جائیدادوں اور ٹرانزیکشنز سے متعلق ہیں اس حوالے سے بھی جج کو بھی بالکل اسی مناسب انداز میں سنا جانا چاہیے جیسے شکایت کنندگان کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے گھنٹوں بات کرنے کا موقع دیا گیا کونسل کے ایک ممبر کی طرف سے یہ تجویز بھی دی گئی تھی لیکن تسلیم نہیں کی گئی
جسٹس اعجاز الاحسن لکھتے ہیں کہ فاضل جج پر لگائے گئے الزامات کا ماخذ یہ ہے کہ ریکارڈ کے مطابق جائیدادیں جو ہیں وہ مارکیٹ ویلیو سے بہت زیادہ کم قیمت پر خریدی گئی ہیں شکایات میں اس حوالے سے کوئی بھی قابل بھروسہ شہادت پیش نہیں کی گئی ہر چیز بد تر ہے
جسٹس اعجاز الاحسن لکھتے ہیں کہ الزام نمبر 7 اس کی بہترین مثال ہے بادی النظر میں ایسی کوئی بھی چیز موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کو آگے بڑھا سکے مزید یہ کہ اگر جج کو میری تجویز کے مطابق وضاحت کا موقع دیا جاتا تو یہ جائیدادیں ان کے ٹیکس ریٹرن میں ڈکلیئر کی گئی ثابت ہوجاتیں ۔جہاں تک جائیدادوں کی کم مالیت کا الزام ہے تو یہ معاملہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت ٹیکس حکام کے جائزے کامعاملہ تھا جو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت اس کو دیکھ سکتے تھے ۔
ایساکوئی بھی جائزہ لئے گئے بغیر جسٹس مظاہر نقوی پر لگایا گیا الزام نمبر 8 کو کرپشن کی شہادت کے طور پر معاملہ آگے بڑھایا گیا اگر نیب سمیت کوئی بھی تفتیشی ایجنسی ایسا کرتی تو وہ عمل قابل قبول نہیں ہوتاکیونکہ بغیر ٹھوس مواد کے اس طرح کی تحقیقات کے نتائج شبہات پر مبنی ہوتے ہیں ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ کونسل نے جس بنیاد پر شوکاز نوٹس جاری کیا ہے میں اسے ناقابل قبول سمجھتا ہوں ۔ دانستہ طور پر ایسی اپروچ اختیار کی جاتی تو کونسل وہ غلطی نہ کرتی جو اس نے اب شوکاز نوٹس جاری کر کے کی ہے

پیراگراف نمبر 6
جسٹس اعجاز الاحسن لکھتے ہیں کہ فاضل جج مظاہر نقوی پر الزام نمبر 1 یہ ہے کہ انھیں اپروچ کیا جاسکتا ہے یہ ایک نقصان دہ دعویٰ ہے جو مکمل طور پر آڈیو کلپس یا جوڈیشل آرڈرز کی بنیاد پر کیا گیا ہے ان دونوں حوالوں سے قانون موجود ہے کسی بھی عدالتی حکم کی بنیاد پر آئین کے آرٹیکل 209 کی کارروائی نہیں کی جا سکتی اس ضمن میں کوئی شک و شبہ موجود نہیں ہے جیسا کہ 27 اکتوبر 2023 کو 20 سے زائد شکایات مسترد کی گئیں کیونکہ ان کی بنیاد جوڈیشل آرڈر تھے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک سے زائد فیصلوں میں یکساں طور پر یہ قانون طے کیا گیا ہے کہ کس طرح آڈیو ویڈیو کلپس کا کسی کارروائی میں استعمال کیا جائے گا یہ الزام لگایا جانا اور اس کو شوکاز نوٹس میں شامل کرنا طے شدہ قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔

پیراگراف نمبر 7
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو جاری کیا گیا شوکاز نوٹس بالکل ایسے ہے جیسے وہ کبھی جاری ہی نہیں کیا گیا اس لئے فوری طور پر اسے واپس لیا جانا چاہیے ۔
اعجاز الاحسن ممبر نمبر II سپریم جوڈیشل کونسل ۔